اپنی بات

14 سال ago Muhammad Usman 0

اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ میں رب کریم کا بے حد ممنون ومشکور ہوں جس نے حضرت محمدۖ کے وسیلہ اور مرشد کامل شیخ محمد امین سلسلہ ادریسیہ کے فیضان نظر سے میں ہفت روزہ نوائے بدر کی باقاعدہ اشاعت کا آغازکرسکا اور اس خواہش کے ساتھ کہ یہ اخبار بہت جلد روزنامہ نوائے بدر اور بدر نیوز (ٹی وی چینل) کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوگا (انشاء اللہ)
اس کے بعد میں اپنے دوستوں’عزیزوں’خیرخواہوں اور صحافتی امور میں میری راہنمائی کرنے والوں اورمیرے ساتھ شانہ بشانہ چلنے والے ساتھیوں کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے میرا ہرمشکل وقت میں ساتھ دیا۔
نوائے بدرکا نام اور اس کی اشاعت کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک دیرینہ خواب کی تکمیل ہے جس کو ایک خاص مشن اور سوچ کے ساتھ شروع کیا گیا ہے نوائے بدر کی نسبت میدان بدر سے لی گئی ہے اللہ تعالیٰ اس نسبت کے صدقے اس کاوش کو پرُاثر بنادے جس میں حق کی فتح اور باطل کو شکست ہوئی۔ نوائے بدر کی کی پالیسی بڑی واضح اور غیر جانبدار صحافت پر استوار کی جائے گی اور ہرممکن حد تک غیر جانبداری کو برقرار رکھنے کی بھر پورکوشش کی جائے گی ادارہ کسی بھی اچھے کام پر اس کی حمایت کرے گا اور ہر اس کام پر جو ملک وقوم دین قیم اور نظریہ پاکستان کی اساس کیلئے خطرہ سمجھے گا اس کی بھر پور مخالفت کرے گا خواہ وہ عمل حکومت کی طرف سے ہویا اپوزیشن یاعام فرداور کسی ادارے کی طرف سے’ادارہ سب کا نقطہ نظر پیش کرے گا اور مثبت صحافت کوفروغ دیا جائے گا’اس فانی دنیا میں عقل کل کوئی نہیں بشری تقاضوں کے سبب غلطیاں اور کمزوریاں سب میں ہوتی ہیں ادارہ بھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے پر آپ کا مشکور ہو گا۔اگر تنقید برائے اصلاح ہوتو خیر ہی خیر ہے اوراگر تنقید برائے تنقید ہوتو پھر خرابیاں پیداہوتی ہیں’ادارہ بھی تنقید برائے اصلاح پر گامزن رہے گا۔
ایک اور انتہائی اہم پہلو زیر بحث لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب میرے اخبار کی واضح پالیسی غیر جانبداری ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں کسی سیاسی پارٹی کا عہدیدار’رکن یا کارکن بھی رہوں اور یہ دعویٰ بھی کردوں کہ میں غیر جانبدارہوں اس لئے اپنے صحافتی امور کو احسن طریقے سے نبھانے کیلئے میں آج سے تمام سیاسی وابستگیوں اور عہدیداریوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتاہوں اور آج سے میرا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہ ہے اگر کوئی تعلق ہے تو وہ ایک صحافی کا ایک سیاستدان سے صحافتی امور کی سرانجام دہی کیلئے ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضع کردینا چاہتا ہوں میں بغیر کسی عہداری کے’ بغیر کسی رکنیت کے ہر اس جماعت کیلئے کا م کرنا فخر سمجھوں گا جوملک وقوم کیلئے ‘جو پاکستان کی بقاء کیلئے جو ظالم کیخلاف اور محکوم کے حق کیلئے جو عدل و انصاف کیلئے’جو اقرباء پروری اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر فیصلے کرے گی۔
آج ملک اندرونی و بیرونی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ قدرتی آفات’ زلزلے’ سیلاب’ ڈینگی مچھر’وبائی امراض’ڈاکے چوری’قتل و غارت’ حادثات اور کرپشن کی وجہ سے عوام و خاص انتہائی پریشان ہیں اور سیاستدان وسیع تر مفاد کانعرہ لگا کر ایک دوسرے کی کرپشن کو چھپانے میں لگے ہوئے ہیں۔ غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے’کوئی گردے بیچنے اور کوئی بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہے’لوگ بجلی وگیس کے بلوں میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ دووقت کی روٹی مشکل ہوگئی ہے’لیکن ہمارے حکمران سب اچھا کی گردان کررہے ہیں اور نظریہ پاکستان کی اساس کو ختم کیا جارہا ہے’لسانی بنیادوں پر ملک مختلف صوبوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں جبکہ اس مملکت خداداد کا قیام اسلام کی بنیاد پر کیا گیا تھا آج امریکہ جس کی خاطر ہمارے حکمرانوں اور حکومتوں نے ملک کا دیوالیہ نکال دیا آج ہمیں دھمکیاں دے رہاہے اور افغانستان جیساہمسایہ ملک بھی ہم پر انگلی اٹھارہا ہے’ہندوبنیا ہروہ چال چل رہا ہے جو پاکستان کے خلاف ہولیکن ہم نے آنکھیں بندکررکھی ہیں اور اپنی کرسی بچانے کے چکر میں ایک دوسرے پر الزامات لگا کرعوام کو بے وقوف بنایاجارہا ہے’آج اے پی سی بلائی جارہی ہے اور بیرونی دنیاکو ایک ہونے کا پیغام دیا جارہا ہے لیکن بقول شاعر!
زباں سے کہہ بھی دیا تو لاالہ تو کیا حاصل
دل نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
آج ہمیں ضرورت ہے ایسے حکمران کی جو عوام کے سکون کیلئے خودراتوں کو جاگے’جو عدل وانصاف کے اس معیار پر عمل پیراہوکہ خود کو احتساب کیلئے عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دے جو اپنے لخت جگر پر زناکاجرم ثابت ہونے پر اسے سودروں کی سزا سنادے اور80دروں کے بعد مجرم مر جائے تو باقی اس کی قبر پر لگائے جائیں’جو زلزلہ آنے پر زمین پر زور سے کوڑامار کر کہے کہ تھم جاکیا تجھ پر انصاف نہیں ہوتا اورزمین تھم جائے’جو دریائے نیل کے بند ہونے پر ایک رقعہ لکھ دے اور دریا چلنا شروع کردے’جو خالد بن ولید جیسے بہت بڑے جرنیل کو ایک قاصد کے ذریعے عہدے سے ہٹادے اور جس کا فلسفہ ہو کہ اگر دریائے نیل کے کنارے کتا بھی بھوکا مرگیا تو اس کا حساب عمر سے لیا جائے گا اور یہ تمام کام وہی کرسکتا ہے جو سب سے پہلے خود کو احتساب کیلئے پیش کردے’جو انصاف کا بلند ترین معیار قائم رکھے جو کشکول توڑ کر عوام کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا گر سکھادے’جو امربالمعروف نہیں عن المنکر کی عملی تفسیر بن جائے اور جوحکومت اور حکمرانی کو عوام کی امانت سمجھ کر چلائے تو پھر انشاء اللہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
یہ پاکستان قیامت تک قائم رہنے کیلئے بناہے’ہمیں صرف اپنے حصے کاکام ایمانداری سے کرنا ہے۔حضرت محمدۖ نے اپنے خطبہ حجتہ الوداع میں قیامت تک کیلئے یونیورسل قانون کی وضاحت فرمادی اور حکمران کی خصوصیات بیان کردیں۔”اے ایمان والو! اگر تم پر نک کٹا حبشی غلام بھی سردار بنادیاجائے اوروہ تمہیں دین کامل کی طرف لے جائے تو اس کی پیروی کرنا”۔”کسی گورے کو کالے پر’عربی کو عجمی پر’امیر کو غریب پر اور آقا کو خادم پر کوئی فوقیت حاصل نہیں سوائے تقویٰ اور پرہیرز گاری کے”۔
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا