عشق رسولۖ اور ہماری ذمہ داریاں

13 سال ago Muhammad Usman 0

آج کا موضوع اتنا اہم’ اتنااعلیٰ’ اتنا معتبر اور اتنا عظیم ترین ہے کہ میں اپنی کم علمی’ کم عملی اور کم ہمتی کا برملا اقرار کرتا ہوں کیونکہ دین کی باتیں’ محبت کی باتیں ‘عشق کی باتیںاور سیرت النبیۖ کی باتیں بغیر کسی خاص نسبت کے پرُاثر نہیں بنتیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مجھے آپ کا ادنیٰ ترین امتی ہونے کے صدقے اس تحریر کو پرُاثر کر دے۔ آمین

اگر تمام جہانوں کے درخت قلمیں بن جائیں’ تمام سمندروں پانی سیاہی بن جائے’ تمام آسمان اور زمینیں کاغذ بن جائیں تو پھر بھی اس موضوع کا حق ادا نہیں ہو سکتااور سیرت النبیۖ مکمل نہیں ہوگی پھر بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں عشق رسولۖ میں اپنا حصہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ میں بھی عشق رسولۖ ڈے کو اپنے انداز سے منا رہا ہوں۔ آج بدبخت یہود و نصاریٰ نے ہمارے حادی برحق حضرت محمدۖ کی شان میں گستاخی کرکے اور ان کی عزت گھٹانے کی ناکام کوشش کرکے اپنی بربادی کا آغاز کر دیا ہے۔ ہم عاشق رسولۖ کہلوا کر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں اور ہمیں ہر حال میں کرنا بھی چاہئے کیونکہ ہمارا دنیا اور آخرت میں ایک ہی سہارا ہیں اور وہ ہیں حضرت محمدۖ۔

نام کے عاشق رسولۖ اور عمل کے عاشق رسولۖ میں زمین آسمان کا فرق ہے اسی طرح عقل اور عشق ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ عقل انسان کو مصالحت پسند’ بزدل’ درمیانہ رستہ تلاش کرنے والا اور سب کے ساتھ مل جل کر رہنے کا درس دیتی ہے جبکہ عشق کی منزل کی سب سے چھوٹی آزمائش اپنی قیمتی ترین چیزجان کو قربان کرنے سے شروع ہوتی ہے جیسا آج ہم عاشق رسولۖ بن کر ریلیاں نکال رہے ہیں۔ جلائو گھیرائو کرکے سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور مجھ جیسے کمزور صحافی حضرات آرٹیکل لکھ کر بڑا تیر مارتے ہیں اور اپنا فرض پورا کرتے ہیں لیکن اصل عشق رسولۖ اس سے کوسوں دور ہے ۔

کاش اس کی روح کو سمجھ لیا جائے ۔عشق رسولۖ جاننے کے لئے ہمیں 1434 سال پیچھے جانا ہوگا ۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مکہ اور مدینہ کی گلیوں’ بازاروں ‘ ریگستانوں’ صحرائوں اور بیابانوں کی سیر کرنا ہوگی۔

جب ایک صحابی حضرت بلال حبشی کو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں کوڑوں سے مارا جاتا ‘ جسم پر دھکتے کوئلے رکھے جاتے’ گرم اور تپتی ہوئی ریت پر لٹایا جاتا لیکن عشق رسولۖ میں ذرا برابر لغزش نہ آئی ظلم کرنے والے ہار گئے اور سہنے والے جیت گئے۔ جب ایک صحابی کو ٹانگوں سے باندھ کر دو انٹوںکو مخالف سمت میں چلا کر چیر ڈالا جاتا ہے لیکن نبیۖ سے تعلق نہ توڑا جا سکا اور عاشق رسولۖ شہید ہو کر بھی جیت گیا جب ایک صحابیہ کا بیٹا باپ اور خاوند ایک جنگ میں شہید ہو جاتے ہیں لیکن اس کا ہر بار آپۖ کے بارے میں خیریت دریافت کرنا عشق رسولۖ تھا۔ جب دور جاہلیت میں عمر بن خطابۖ کا اپنی بہن اور بہنوئی کو مارنا پیٹنا اور آقاجیۖ سے تعلق کو ختم کرنے کو کہنا۔ ہمیں میدان بدر میں 313 مجاہدین کے عشق کو دیکھنا ہوگا جو اپنے سے بہت بڑی طاقت سے ٹکرا گئے اور آپ کی حفاظت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔ میدان بدر میں اپنے قریبی عزیز رشتہ داروں’ عتبہ’ شیبہ اور ولید کے مقابلے میں حضرت حمزہ اور حضرت علیکا ان کو قتل کرنا’ جب حضرت ابوبکر صدیق کا اپنے بیٹے کو بتانا کہ خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر بدر کے میدان میں تم ایک دفعہ بھی میری تلوار کے سامنے آجاتے تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔

جنگ احد میں آپۖ کے دانت مبارک کا شہید ہو جانا اور دیوانوں کا آپ ۖ کے سامنے سینہ تان کر تیروں کی بارش میں کھڑے ہونا’ حضرت اویس کرنی کا عشق میں اپنے سارے دانت شہید کر دینا اور حضرت عمر  کا یہ کہنا کہ جو کہے گا محمدۖ فوت ہو گئے ہیں میں اسے قتل کر دوں گا۔

ہمیں میدان کربلا کر دیکھنا ہوگا جہاں عشق رسولۖ میں سرشار 72 افراد کا مختصر ترین قافلے کا جام شہادت نوش کرنا اور امام حسین کے سر مبارک کا نیزے پر قرآن کی تلاوت کرنا عشق اور عاشق کی اعلیٰ ترین مثال ہے ۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ عاشق رسول ۖ کہلوانے کیلئے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقتدار کرنے ہوں گے یا تو ہمیں عزت سے جینا ہوگا یا غیرت مند بند کر مر جانا ہے ہمیں بطور مسلم امہ سوچنا ہے اور یہود و نصاریٰ کی اس بے غیرتی پر انہیں سبق سکھانا ہے ہمیں اللہ کے فرمان پر عمل کرنا ہے جس میں آپۖ کی شان اور احترام کا ذکر ہے کہ ”کبھی بھول کر بھی آپۖ کی آواز سے اونچی آواز میں بات نہ کرنا ورنہ ساری نیکیاں برباد ہو جائیں گی”۔

اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس بھول کی یہ سزا ہے تو جو آپۖ کی شان میں گستاخی کرنے والے کا کیا انجام ہونا چاہئے۔ سورة کوثر کا شان نزول آپۖ کی عظمت کا مظہر ہے لیکن میں اس حالیہ بدمعاشی اور یہود و نصاریٰ کی اس گھٹیا حرکت کو ایک اور زاویہ سے دیکھتا ہوں جو مجھے قرین قیاس لگتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے اے محبوت میں نے تیرا ذکر بلند کیا۔

 ذرا غور کریں تو آج پوری دنیا میں مسلمان مظلوم اور یہود و نصاریٰ و دیگر مذاہب پوری آب و تاب سے دنیا میں حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں آج کی اس فساد بھری دنیا میں اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اپنے محبوب سے کئے گئے وعدے کو دنیا میں پھر ظاہر کریں جب یہ غیر مذاہب آپۖ کی شان کو کم کرنے کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں آپۖ کے ذکر کو بلند کرنے’ آپ کی عظمت میں اضافہ کرنے اور جس کو آپۖ کے بارے میں کچھ بھی شک ہو اس کو آپۖ کی عظمت دکھانے کا بندوبست کر دے۔یہ میرے اللہ کا نظام ہے ورنہ یہ بے غیرت ٹولہ تو آپۖ کی زندگی میں بھی مسائل پیدا کرتا رہا ۔ کبھی ظلم و ستم سے کبھی جادوگر اور کاہن کہہ کر کبھی راستے میں کانٹے بچھا کر اور کبھی ہجرت کرنے پر مجبور کرکے لیکن یہ سب اللہ تعالیٰ کے وہ اسباب ہیں جوہر آنے والے دن اور قیامت تک آپ کے ذکر کو بلند کرنے کا سبب بنتے رہیں گے جب تک کہ آپۖ راضی نہ ہو جائیں۔ یہ بدبخت اپنے کئے کی سزا پا کر رہیں گے لیکن ہمیں معجزوں کا انتظار کرنے کی بجائے اپنے حصے کا کام ایمانداری سے مکمل کرنا ہے ہمیں ان کی ہر چال کو ان پر لوٹانا ہے’ ہمیں دو ٹوک الفاظ میں واضح اظہار کرنا ہے ‘ ہمیں ان کی معاشی منڈیوں کا بائیکاٹ کرنا ہے’ میڈیا وار کا مقابلہ کرنا ہے ہمیں ان کی دوستی کو ختم کرنا ہے کیونکہ آپۖ کا فرمان ہے کہ ”یہود و نصاریٰ کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے”۔

اگر یہ کبھی دوست بنتے ہیں تو کسی مصلحت کسی فائدے اور کسی ذاتی وجہ سے لیکن دل میں بغض کی آگ میںجھلس رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں مسلم امہ کو خواب غفلت سے جگانا ہے ہمیں بارش کا پہلا قطرہ بننا ہے ہمیں ان کی سازشوں کامقابلہ کرنا ہے ۔الغرض معاشیات’ اخلاقیات’ سیاسیات علم و عمل کے میدان میں اپنے دین اپنے قرآن اور اپنے پیارے نبیۖ کی حیات مبارکہ سے راہنمائی لینی ہے۔ہمیں عاشق رسولۖ ہونے کا پکا ثبوت دینا ہے اور تمام مصلحتوں سے آزاد ہو کر وہ کرنا ہو جو عشق کہتا ہے اور اس بے شرمی کی چادر کو اتار پھینکنا ہے کہ امریکہ سے دوستی بھی رہے اور آپۖ کی شان میں کی جانیوالی گستاخیاں بھی جاری رہیں۔ اب ہمیں صرف یہ سوچنا ہے کہ ”یا تو ہمیں عزت کے ساتھ زندہ رہنا ہے یا پھر غیرت مند بن کر مر جانا ہے”۔

میں ان چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ساتھ اس اہم ترین موضوع کا حق کسی بھی صورت میں ادا نہیں کر سکا بلکہ ”حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا” اس چھوٹی سے کاوش کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیں اور میری نجات کا ذریعہ بنا دیں (آمین)

(24 ستمبر 2012ئ)