سارک تنظیم کی کامیابی کیلئے اپنا کردار جاری رکھے گا
5 سال ago Muhammad Zeeshan Azeem 0
اسلام آباد (بیورورپورٹ) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ پاکستان سارک تنظیم کی کامیابی کیلئے اپنا فعال کر دار جاری رکھے گا ،عوام کی جان اور روزگار بچانے کی ہماری متوازن کوششیں کورونا کے اثرات کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں،کورونا کے پھیلائوپر قابو پانے کے لئے علاقائی سطح کی سوچ اور اقدامات کی ضرورت ہے،ہمیں درپیش مشترکہ مسائل میں کورونا کی عالمی وبا، تحفظ خوراک، ٹڈی دل کا حملہ اور ماحولیاتی تغیر شامل ہیں جس سے نبردآزما ہونے کیلئے علاقائی سطح پر مشترکہ طرز عمل اور سوچ کی ضرورت ہے،جنوبی ایشیاء کے عوام کی ترقیاتی ضروریات کو تب ہی پورا کیاجاسکتا ہے جب باہمی طور پر وسائل کو جمع کرکے علاقائی انداز اور طرز عمل اختیار کیاجائے،پاکستان اپنا حصہ ڈالنے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازعہ خطوں کے سٹیٹس کو تبدیل کرنے کے لئے ہر غیرقانونی اور یک طرفہ اقدام کی ہمیں بھرپور مذمت اور مخالفت کرنا ہوگی،ایسے یک طرفہ اقدامات امن وآشتی اور تعاون کا علاقائی ماحول پیدا کرنے کے ہمارے اجتماعی مقصد کے لئے زہرقاتل ہیں، جن کی ہمیں بھرپور مزاحمت کرنا ہوگی۔جمعرات کو وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75وں اجلاس کے موقع پر سارک وزراتی کونسل کے غیررسمی ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میرے لئے یہ امرانتہائی باعث مسرت ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس کے انعقاد کے موقع پر سارک وزارتی کونسل کے اس غیررسمی اجلاس میں اپنے معزز ہم منصبوں کے ساتھ یہاں موجود ہوں۔ انہوں نے کہاکہ میں سارک وزارتی کونسل کے چیئرپرسن پردیپ کمار گیاوالی کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس غیررسمی نشست کا اہتمام فرمایا۔ انہوں نے کہاکہ میں سارک کے سیکرٹری جنرل عزت مآب ایسالہ ویراکون کو بھی سراہتا ہوں کہ انہوں نے رکن ممالک کو سارک کے تحت تعاون کے کلیدی شعبہ جات میں اب تک ہونے والی اہم بات چیت اور پیش رفت پر عمل درآمد سے متعلق تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ سارک کے بانی رکن کے طور پر پاکستان ہمیشہ سے اس تنظیم کو بے حد اہمیت دیتا آیا ہے اور سارک منشور کے مقاصد اور اصولوں کے ساتھ پختہ وابستگی پر کاربند ہے۔ انہوں نے کہاکہ سارک مساوات پر مبنی خودمختاری کے اصول پرقائم ہے جو بامعنی علاقائی تعاون کی بنیاد ہے،پاکستان اس اہم تنظیم کی کامیابی کے لئے اپنا فعال کردار جاری رکھے گا۔ اس اجلاس کا ورچوئل انداز میں منعقد ہونا عالمی سطح پر کورونا وبا کے اثرات کی موجودگی کا ثبوت ہے، ہم کورونا وبا کے نتیجے میں انتقال کر جانے والوں کے لئے غم کا اظہار کرتے ہیں اور ان سب کے لئے دعا گو ہیں جو اس عفریت سے برسرپیکار ہیں۔انہوں نے کہاکہ کورونا وبا کے اثرات کے نتیجے میں 1930 کے گریٹ ڈپریشن سے بھی بدتر معاشی بحران پیدا ہوئے ہیں جن کے معیشت، معاشروں اور اقوام پر نہایت ہی گہرے اثر مرتب ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان ”سمارٹ لاک ڈاون”، ٹیسٹ، ٹریسنگ اور کورنٹین کی جامع حکمت عملی کے ذریعے کورونا کی روک تھام میں کامیاب رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عوام کی جان اوران کا روزگار بچانے کی ہماری متوازن کوششیں کورونا کے اثرات کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ وزیراعظم کے آٹھ ارب ڈالر کے ریلیف پیکج کے ذریعے ہم نے معاشرے کے کمزور ترین طبقات کوریاست کی طرف سے مدد فراہم کی۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے دس لاکھ رضاکار نوجوانوں کی ٹاسک فورس تشکیل دی جو احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کرانے کیلئے انتظامیہ کی مدد کے علاوہ نگرانی اور اعدادوشمار کے حصول کے لئے معاونت پر مامور ہے،لاک ڈائون اور کاروباری سرگرمیاں ماند ہونے کی وجہ سے بے رزگار افراد کو دس ارب درختوں کی شجرکاری کے منصوبوں میں نوکریاں دی جاری ہیں، اسی طرح ہمارے صحت کے شعبہ کی مضبوطی وتقویت کے لئے پانچ سو پچانوے ملین ڈالر کی لاگت سے ‘پاکستان پریپئیرڈنس اینڈ رسپانس پلان’ (پی۔پی۔آر۔پی) کا آغاز کیاگیا۔ کورونا سے دنیا بھر بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں صحت کے شعبے کی کمزوریاں کھل کر سامنے آگئی ہیں، یہ چیلنج سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک نیا موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ ہم تشکیل نو کرتے ہوئے اپنے طبی نظام کو ترقی دیں۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نے مقامی سطح پر پہلی وینٹیلیٹر مشین تیار کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ اگرچہ پاکستان نے اپنی سرحدی حدود میں کورونا وبا پر کافی حد تک قابو پالیا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کورونا کے پھیلائوپر قابو پانے کے لئے علاقائی سطح کی سوچ اور اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ جنوبی ایشیاء کے عوام کی زندگیوں اور روزگار کا تحفظ ہو سکےـ انہوں نے کہاکہ موثر علاقائی تعاون کے پیش نظر، پاکستان نے مورخہ 23 اپریل 2020ء کو سارک وزرائے صحت وڈیو کانفرنس کا انعقاد کیا تاکہ کورونا کے مقابلے کے لئے علاقائی سطح کا طرز عمل اپنایا جائے، پاکستان نے تمام رکن ممالک کو موقع فراہم کیا کہ ایک دوسرے کی کامیابیوں اور تجربات سے سیکھیں۔ وزیراعظم عمران خان نے عالمی رہنماوں، ممتاز مالیاتی اداروں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپیل کی کہ قرض میں ریلیف کے عالمی اقدام’ کے ذریعے کورونا وباء کے نتیجے میں بدترین مالیاتی بحران کے مقابلے کے لئے، ترقی پزیر ممالک کو درکار مالی معاونت فراہم کی جائے،یہ اپیل ثمرآور ثابت ہوئی اور اس کے نتیجے میں جو مالی گنجائش پیدا ہوئی، وہ ترقی پزیر ممالک کو درپیش چیلنجز کامقابلہ کرنے اوراپنے عوام کی فوری ضروریات پوری کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں درپیش مشترکہ مسائل میں کورونا کی عالمی وبا، تحفظ خوراک، ٹڈی دل کا حملہ اور ماحولیاتی تغیر شامل ہیں جس سے نبردآزما ہونے کیلئے علاقائی سطح پر مشترکہ طرز عمل اور سوچ کی ضرورت ہے، اس مقصد کے حصول کے لئے سارک کو ان مسائل پر ازسرنوغور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ادارہ جاتی سطح پر ایسی بہترین تیاری ہو کہ مستقبل میں اس نوع کے مسائل کے درپیش آنے پر ان سے موثر انداز سے نمٹنا ممکن ہوسکے۔ انہوں نے کہاکہ کورونا وبا کے معاشرے کے کمزور اور نادار طبقات پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ حکومتوں کے ترقیاتی ایجنڈے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ فطری امر ہے کہ بحران اور مشکلات کے وقت اپنے اندر جھانکا جائے۔ جنوبی ایشیاء کے عوام کی ترقیاتی ضروریات کو تب ہی پورا کیاجاسکتا ہے جب باہمی طور پر وسائل کو جمع کرکے علاقائی انداز اور طرز عمل اختیار کیاجائے۔ اس ضمن میں پاکستان اپنا حصہ ڈالنے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔انہوں نے کہاکہ میں معزز شرکاء کرام کی توجہ سارک کی گذشتہ تین سے زائد دہائیوں کے دوران مجموعی کارکردگی کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا، سارک کا ادارہ جنوبی ایشیاء کے عوام کے لئے امید کا استعارہ ہے تاہم اس ادارے اور ان کی ذیلی باڈیز کی نشوونما کے باوجود عوام کی زندگیوں پر اس کے اثرات ہماری اجتماعی توقعات کے مطابق نہیں آ سکے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں عالمی وعلاقائی اور دیگر اقوام کے ساتھ اور بھی زیادہ تعاون استوار کرنے کے ضمن میں مزید توجہ پر مبنی، نتیجہ خیز کوششیں درکار ہیں، اس ضمن میں پاکستان ہمیشہ اس تجویز کا حامی رہا ہے کہ وہ مبصر ممالک، جو سارک ممالک کے ساتھ فعال انداز سے روابط استوار کئے ہوئے ہیں اور جو خطے کی ترقی خاص طورپر کورونا وبا کے بعد معاشی بحالی کے تناظر میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کا درجہ ڈائیلاگ پارٹنر کے طور پر بڑھا دیا جائے ،صارفین کی بڑی منڈی کے طورپر، ہمارے خطے میں اجناس، خدمات اور سرمایہ کاری کے لحاظ سے بے پناہ کشش اور مواقع موجود ہیں۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سارک کاخطہ دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔انہوں نے کہاکہ جنوبی ایشیاء اپنی آبادی کے لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل ہے ، ہماری آبادی کا بڑا حصہ توانا نوجوان نسل پر مشتمل ہے جوہمیں افرادی قوت کے لحاظ سے بڑی مارکیٹ بنا دیتا ہیں۔ بے پناہ قدرتی وسائل منتظر ہیں کہ ہم مل کر انہیں بروئے کار لائیں۔ انہوں نے کہاکہ ترقی، معاشی شرح نمو، غربت کا خاتمہ اور عوام کی سماجی بہتری کے حصول کے لئے تنازعات کا پرامن حل شرط اول ہے،اس تناظر میں ہم، اقوام متحدہ کے منشور اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر ایماندارنہ عمل درآمد کے لئے پوری قوت سے زور دیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازعہ خطوں کے سٹیٹس کو تبدیل کرنے کے لئے ہر غیرقانونی اور یک طرفہ اقدام کی ہمیں بھرپور مذمت اور مخالفت کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ ایسے یک طرفہ اقدامات امن وآشتی اور تعاون کا علاقائی ماحول پیدا کرنے کے ہمارے اجتماعی مقصد کے لئے زہرقاتل ہیں، جن کی ہمیں بھرپور مزاحمت کرنا ہوگی۔انہوں نے کہاکہ انسانوں کے بنیادی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا تحفظ یقینی بنانا ہمارا فرض ہے۔ میں کونسل کے ارکان پر زور دوں گا کہ دیرینہ تنازعات سے متاثرہ عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی منظم انداز میں خلاف ورزیوں کا احساس و ادراک کیاجائے اورلوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے۔ سارک منشور کی روح اور اصولوں کے مطابق تنظیم اور اس کی باڈیز کی مضبوطی کے لئے رکن ممالک کو مل کر کام کرنا چاہئے،اس ضمن میں جنوبی ایشیاء یونیورسٹی خصوصی توجہ کی متقاضی ہے جس میں کرپشن اور بدانتظامی کی خبریں عالمی میڈیا کی زینت بن چکی ہیں۔انہوں نے کہاکہ رکن ممالک کے درمیان علاقائی تعاون کے فروغ کے مقصد کے لئے سارک قائم ہوئی تھی اگرچہ اعلیٰ اور تسلیم شدہ ادارے پہلے سے اس مقصد کے حصول کے لئے مرکزی کردار ادا کررہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ان اداروں کو تسلیم نہ کرنے کی کوئی بھی کوشش سارک کے قیام کے مقاصد کے منافی ہے،جنوبی ایشیاء کی سول سوسائٹی کا حصہ یہ باڈیز، سارک کے مختلف اہداف ومقاصد کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہی ہیں جنہیں اپنی روایت کے مطابق اپنا کام جاری وساری رکھنا چاہئے۔ اس ضمن میں کوئی بھی فیصلہ رکن ممالک کی خالصتا اپنی رضامندی پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہاکہ علاقایت کی روح اور سارک کے پلیٹ فارم کے ساتھ پاکستان کی وابستگی کے تحت میں پاکستان کی طرف سے یہ پیشکش کرنا چاہتا ہوں کہ ہم انیسویں سارک سربراہ کانفرنس کے اسلام آباد میں انعقاد کی میزبانی کے لئے تیار ہیں، مجھے امید ہے کہ پیدا کردہ مصنوعی رکاوٹیں دورکی جائیں گی اور علاقائی تعاون کے موثر ذریعے کے طورپر سارک کو کام کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔