تیر’ شیر’ سونامی اور عوام

13 سال ago rehan 0

یہ ایک حقیقت ہے کہ فرد’ معاشرہ’ جماعتیں اور قومیں اپنے رہن سہن’ رسم و رواج ارد گرد کے ماحول اور علامتی نشانوں یا نعروں سے پہچانی جاتی ہیں اور کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جگہ ان کا برتائو اپنے پسندیدہ نشان کی غمازی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے 18 کروڑ انسانوں نے بھی کسی نہ کسی طرح اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہو کر انہی علامتی نشانوں کو اپنا قبلہ مان لیا ہے اور بغیر کسی تحقیق کے اس کے فوائد زیادہ ہیں یا نقصانات کیونکہ ہم آقا پرستی میں اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ ہر ناجائز کام کو جائز قبول کر لیتے ہیں۔
اگر ذرا غور کریں تو ملک کی موجودہ پوزیشن میں تین بڑی سیاسی جماعتوں کے نشان اور ان پر بے جا فخر سمجھ سے بالا تر ہے۔ تیرخواہ دشمن کے ہاتھ میں ہو یا دوست کے انجام کسی نہ کسی کو ایک دن نقصان ہی پہنچائے گا اور اگر یہی تیر کسی ظالم’ جابر یا آقا کی ہر بات کو فرض کی طرح سمجھ کر ماننے والے کے ہاتھ میں آ جائے تو پھر وہاں سے انصاف ختم ہو جاتا ہے صرف اپنے پروردہ افراد ہی جینے کا حق رکھتے ہیں۔ تیر سے کیا فوائد عوام تک پہنچے اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑتا ہوں۔
شیر اللہ کی بنائی ہوئی ایک مخلوق ہے جو کسی بھی طور پر انسان سے افضل نہیں کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے شیر نہیں اور شیر جنگل میں رہنے والا گوشت خور ہے جو کسی بھی طرح انسان کا دوست نہیں بن سکتا یہ اس کی جبلت کے خلاف ہے کہ وہ انسان سے دوستی رکھے دیر یا بدیر شیر اپنی فطرت کی طرف ہی جائے گا جو کسی بھی طرح ایک فرد یا انسان کے لئے فائدہ مند نہیں لیکن ہم پھر بھی شیر کو آقا سمجھ بیٹھے ہیں کیونکہ ہم ذہنی طور پر اپنے آقائوں کی ہر ادا کو اچھا سمجھتے ہیں اس کا فیصلہ بھی قاری پر چھوڑتا ہوں۔
سونامی کی بات کرنے والے بھی منطق سے بہت دور کی بات کرتے ہیں اور ہر بات کو سونامی میں شامل کرکے اپنا فرض عین پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں آج تک کا ہسٹری ریکارڈ گواہ ہے کہ سونامی یا سونامیوں سے کبھی کسی ملک یا قوم کا فائدہ نہیں ہوا بلکہ بے حد و حساب نقصان ہوا ہے اور سیاسی رہنما ہماری محبت میں دیوانے ہو کر ہمارے دکھ دور کرنے کے لئے ہماری پریشانیوں کو حل کرنے کے لئے اور خوبصورت مستقبل کیلئے سونامی لا کر ملک کی تقدیر بدلنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن قابل احترام رہنما یہ بھول رہے ہیں کہ سونامی تباہی کا نام ہے کامیابی کا نہیں۔
دو میں سے ایک بات کو قبول کر لیں تو بات آسان ہو جائے کہ یا تو سونامی کی جگہ ایسا لفظ استعمال کریں جو تباہی نہیں بلکہ قوموںکی ترقی کا مظہر یا سونامیوں سے ہونے والے نقصانات کی ذمہ داری قبول کر لیں کیونکہ سونامی کو اچھے اور برے کی تمیز نہیں ہوتی’ فیصلہ آپ پر ہے۔
آخر میں اگر پاکستان کی اٹھارہ کروڑ معصوم عوام کی بات کی جائے تو وہ بھی شاید چاہتے ہیں کسی تیر سے زخمی ہونا اور بار بار ہونا پسند کرتے ہیں۔ وہ بھی کسی شیر کے آگے ڈالے جانا اب شیر کی مرضی کہ وہ عوام کے ساتھ کیا کرے یا پھر سونامی اپنی تباہی کی منتظر قوم کو کوئی معجزہ ہی بحرانوں سے نکال سکتا ہے بقول علامہ اقبال!
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خود خیال اپنی حالت بدلنے کا
اٹھارہ کروڑ عوام کے پاس مہذب ترین اور کامیاب ترین ایک ہتھیار ہے اور وہ ہے ووٹ کا ہتھیار۔ جس نے قوموں کی تقدیریں بدل دیں اس ہتھیار کو استعمال کریں۔ ووٹ کا استعمال ایسا کریں کہ آنے والی نسلیں آپ کو جرم وار نہیں بلکہ نجات دہندہ سمجھیں ورنہ ہم ”عوام” ہی قصور وار ہیں حکمران نہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اٹھارہ ہزار مخلوقات میں سے صرف انسان کو اچھے اور برے کے فرق کو سمجھنے کا اہل بنایا کون اچھا ہے اور کون اچھا نہیں ہے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
(11 مئی 2012ئ)