سیانے کہتے ہیں

13 سال ago rehan 0

ہمارے ملک کی 80 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور اس 80 فیصد آبادی کے دیہاتی سیانے کہتے ہیں کہ اگر کسی مرنے والے کے بارے میں جاننا چاہیں کہ اس کا کردارکیسا تھا؟ اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟ لوگ اس سے خوش تھے یا ناراض؟ تو اس مرنے والے کے جنازے میں شریک سب سے پیچھے چلنے والے لوگوں میں شامل ہو جائیں اور ان کی باتیں سنیں آپ کو اس مرنے والے کی ساری زندگی کا حاصل نچوڑ مل جائے گا کیونکہ عوام کبھی جھوٹ نہیں بولتے وہ ہر جانے والے کی اچھائی اور برائی پر اپنے انداز سے تبصرہ یاری ایکشن ضرور دیتے ہیں خواہ وہ دنیا کا طاقتور ترین ملک امریکہ اور اس کا طاقتور ترین حکمران جارج بش ہی کیوں نہ ہو جس نے اپنی طاقت کے نشے میں دو لاکھ عراقیوں کو شہید کیا اور اسلحہ کے زور پر کامیابیاں حاصل کرنا چاہیں لیکن ایک عراقی صحافی منتظرالزیدی کی نفرت سے مارے گئے دو جوتوں کا مقابلہ نہ کر سکا۔
انسان حقیقی موت سے مر کر تو چین پا سکتا ہے لیکن نظروں سے گر کر زندگی گزارنا کتنا مشکل ہے اس کا جواب صدر بش سے بڑھ کر کوئی نہیں دے سکتا ۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا جانا’ عوام کا اس پر ری ایکشن میں ڈھول کی تھاپ پر ناچنا’ بھنگڑے ڈالنا’ مٹھائیاں تقسیم کرنا اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں دینا اور کسی نئے نجات دہندہ کی تلاش شروع ہو جانا اور کھری بات کا کھوٹہ ہو جانا اس اینکر سے پوچھیں؟ کیا یہ سب سیانوں کے فلسفے کا نچوڑ نہیں۔ یہ ری ایکشن’ یہ عوامی ردعمل ہمارے آنے والے حکمرانوں’ سیاستدانوں اور لٹیروں کو اپنا قبلہ درست کرنے کے لئے ایک شاندار سبق ہے کہ وہ تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے کس انجام کو پسند کرتے ہیں کہ ان کے چلے جانے پر لوگ خوشی سے مٹھائیاں تقسیم کریں یا لوگ خود کو آگ لگا کر اس کے غم میں اپنی زندگیوں کو ختم کر لیں اور آج پاکستان کی سیاست اور حکمرانی کی کرسی بھٹو کی تصویر لگا کر شہید کا جانشین بن کر صاحب عزت کہلایا جا رہا ہے۔
یہ دلیل بڑی واضح اور جامع ہے کہ انسان کی نفرت ہزاروں’ لاکھوں رائفلوں’ توپوں’ بموں اور میزائلوں سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہوتی ہے جو تاریخ کے بڑے سے بڑے سورما اور حقیقت کے فرعون کو بھی زندہ درگور کر دیتی ہے ۔
تاریخ میں زندہ رہنا ہے تو پھر حکمرانوں کو وہ کام جو عوام کی خواہش کے مطابق ہوں اور عوام جس پر خوش ہوںاور یہ پختہ یقین ہو کہ حکمران یا لیڈر کابڑھنے والا ہر قدم’ ہر کام عوام کی خوشی اور آرام کے لئے ہے تو پھر یاد کریں قیام پاکستان کی تاریخ کو جب قائد اعظم محمد علی جناح جو کہ سوائے انگریزی کے کسی اور زبان میں تقریر نہیں کر سکتے تھے جبکہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمان تعلیمی میدان میں حد درجہ پیچھے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں قائد کی تقریر سننے آتے تھے حالانکہ سمجھ کچھ نہیں آتی تھی لیکن یہ یقین تھا کہ قائداعظم جو کہہ رہے ہیںوہ مسلمانوں کے لئے درست کہہ رہے ہیں اور ہم اس کے ساتھ ہیں اور اللہ کے کرم سے ناممکن بات ممکن ہوئی اور پاکستان بن گیا۔
جب عوام یہ سمجھیں کہ حکمران ہمارے مفادات کا خیال نہیں رکھتے’ غریب کو حق نہیں مل رہا ۔ امیر کی بات مانی جاتی ہے صرف صدر کو خوش کرنے کے لئے عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے اور غریب عوام کے بنیادی حقوق بھی نہیں مل رہے۔ جب مہنگائی’ غربت ‘ بیروزگاری صحت اور انصاف جیسے اہم ترین مسائل پر توجہ نہ دی جائے تو پھر عوام جانے والے حکمرانوں کے ری ایکشن میں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے ہیں مٹھائیاں بانٹتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں اور کسی نئے نجات دہندہ کی تلاش شروع کر دیتے ہیں عوام کبھی جھوٹ نہیں بولتے کیونکہ سیانے کہتے ہیں۔
(22 جون 2012ئ)