شیر’ بھیڑ اور حکمران
13 سال ago yasir 0
”اچھے حکمران بری قوموں کو بھی اچھا بنا دیتے ہیں اگر بھیڑوں کے ریوڑ کو شیر کی قیادت مل جائے تو وہ ریوڑ کو لشکر میں تبدیل کرد یتا ہے اور اگر شیروں کی قیادت بھیڑ کو دے دی جائے وہ شیروں کو گھاس کھانے پر مجبور کر دیتی ہے اور جو قوم اپنے لئے اچھے لیڈر منتخب نہیں کرتی وہ قوم کبھی اچھی نہیں بن سکتی”۔
”ایک اخبار میں ہزار تلواروں سے زیادہ طاقت ہوتی ہے چنانچہ اگر تم کسی بری قوم کو اچھا بنانا چاہتے ہو تو اس کے صحافیوں اور اخباروں کو اچھا بنا دو وہ قوم اچھی بن جائے گی”۔
”صرف اچھی مائیں ہی اچھی قوم بنا سکتی ہیں اور جس قوم کی مائیں اچھی نہیں ہوتیں وہ قوم کبھی اچھی نہیں بن سکتی”۔
یہ تین باتیں ایک عظیم فاتح’ عظیم جرنیل اور عظیم واریئر نپولین بوناپارٹ نے کیں جس کو یورپی مورخین دنیا کے پانچ بڑے حکمرانوں میں شمار کرتے ہیں جس نے دو تہائی یورپ کو فتح کیا حالانکہ چھوٹا قد ہونے کی بناء پر اسے فوج کی نوکری کیلئے نااہل قرار دیا گیا۔ نپولین بونا پارٹ 1769ء میں فرانس میں پیدا ہوا ۔ اللہ نے اسے دو بڑی خوبیوں سے نوازا تھا۔ ایک وہ جرات کا پہاڑ تھا اور دوسرا اس کا حافظہ کمال درجے کا تھا’ بلا کی یادداشت کا مالک تھا’ گفتگو کا حاصل مقصد بونا پارٹ کی تعریف کرنا یا اس کی کامیابیوں کے گن گانا نہیں بلکہ حضرت محمد ۖ کے فرمان کے مطابق ترجمہ”یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے”۔
آج ہم غور کریں تو ان تین باتوں میں بے شمار سوالات موجود ہیں مثلاً کیا ہمارے حکمران اچھے ہیں؟ کیا قیادت کرنے والے شیر کی خوبیوں والے ہیں یا بھیڑ کی حیثیت رکھتے ہیں؟ کیا ہم اچھی قوم ہیں؟ کیا ہم اچھے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں؟ کیا ہمارے اخبار اچھے ہیں؟ کیا ہمارے صحافی اچھے ہیں؟کیا ہزار تلواروں سے زیادہ طاقت رکھنے والے اخبار کی طاقت کو درست استعمال کیا جاتا ہے؟ کیا ہماری مائیں اچھی مائیں ثابت ہو رہی ہیں؟ کیا ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے آنے والی نسلوں کو منتقل کر رہی ہیں؟ اور آخر میں کیا ہم ایک اچھی قوم بننے کے لئے درست سمت کا تعین کرچکے ہیں؟ اگر تمام سوالات کے صحیح اور ایمانداری سے جواب ڈھونڈیں تو جواب کیا نکلتا ہے؟ اپنی رائے شامل کرنے کی بجائے عوام پر چھوڑتا ہوں۔
ہمیشہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو حکمرانوں کا انتخاب ذات برادری’ جاگیرداری’ کاروباری اور تمام مصلحتوں سے الگ ہو کر کرتی ہیں اور مقصد صرف ملک کے لئے ایک قابل حکمران کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔
اخبار اور صحافی یا میڈیا جس کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے کیا اس ستون سے منسلک افراد اپنا کردار درست نبھا رہے ہیں؟ جب ہم اپنے حصے کا کام درست نہیں کرتے تو حکمران چننے میں صحافتی امور کو چلانے میں اور آنے والی نسلوں کی درست تربیت کرنے میں پھر ہم کیوں گلہ کرتے ہیں؟ حالات کو پھر کیوں برا بھلا کہتے ہیں’ حکمرانوں کو پھر کیوں پریشان کرتے ہیں۔ سماجی’ معاشی’ معاشرتی’ دینی اور سوشل لائف کے تباہ ہونے سے’ جب حکمران شیر کی بجائے بھیڑ کی سوچ والے ہوں گے تو پھر ڈومور پر عمل کرنا ہوگا۔ پھر عافیہ صدیقی جیسی بہادر بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سے غیروں کے حوالے کرنا ہوگا۔ پھر ڈرون حملوں پر خاموشی ضروری ہوگی پھر اپنے گھر میں رہ کر بھی محافظوں کی ضرورت پڑے گی۔ پھر ہماری مرضی نہیں بلکہ کسی اور کی حکمرانی ہوگی۔
جب صحافی ذاتی مفاد کی خاطرلوگوں کی پگڑیاں اچھالیں گے جب زرد صحافت پروان چڑھے گی اور جب ملک و قوم سے زیادہ عزیز اپنی ذات بن جائے گی تو پھر اخبار ہزار تلواروں کی طاقت سے محروم ہوجائے گا۔ جب مائیں آنے والی نسلوں کو اصلاف کے قصے سنانا بند کر دیں گی’ جب دین سے دوری ہوگی’ جب ذاتی پسند یا ناپسند قوم کی مجموعی سوچ پر حاوی ہو جائے گی پھر انقلاب نہیں آیا کرتے پھر اللہ کا عذاب آتا ہے جو حکمرانوں کی شکل میں’ میڈیا کی شکل میں اور فیشن زدہ مائوں کی شکل میں ہوتا ہے۔
”یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے”
(16 جون 2012ئ)

