اپنے حصے کا کام
13 سال ago yasir 0
آج پاکستان کا ہر فرد پریشان ہے اور ہر آنے والا دن پہلے سے بدترہوتا جا رہا ہے ۔ مسائل ختم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ قتل و غارت گری’ چوری ڈاکے معمول بن گئے ہیں اور انصاف نام کی چیز معاشرے میں نہیں’ پھر ہم گلہ کرتے ہیں اور ہر دوسرا شخص یہ سوال کرتا ہے کہ حالات کب درست ہوں گے؟ کون ذمہ دار ہے؟ کون آئے گاجو ان حالات سے ملک و قوم کونکالے گا؟ اور ہم نے مسائل میں زندہ رہنا قبول کر لیا ہے ہم نے ایک قانون بنایا ہے جسے جمہوریت کا نام دیا ہے جس میں عددی برتری کو اہمیت دی جاتی ہے جس میں ایک طرف دس برے لوگ ایک اچھے شخص پر بھاری ہوتے ہیں جس میں ذاتی مفادات اور فوائد کے لئے دشمن کو بھی گلے لگا لیا جاتا ہے مقصد صرف اور صرف 18 کروڑ عوام پر حکمرانی اور اپنی انا کی تسکین ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ ہر چھوٹی بڑی غلطی معاف کرنے والا ہے سوائے شرک کے اور ہم یہ جرم متواتر کرتے چلے آ رہے ہیں ہم منافقت کرتے ہیں’ اللہ کے قانون کو توڑتے ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی غیراللہ کے آگے جھک جاتے ہیں۔ 18 کروڑ عوام کے حقوق کا حلف اٹھانے والے وزیراعظم صرف ایک فرد کو راضی کرنے کی خاطر نااہل ہوجاتے ہیں۔
ہمارا حال گائوں کے اس نوکر جیسا ہے جس کو چوہدری کے ہر ظلم و زیادتی اور قانون شکنی کو اپنے سر لینا اس کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ چوہدری اگر گائوں کے کسی کمزور کسان پر ظلم کرتا ہے اور عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو چوہدری کا وہ وفادار گاموں چوہدری کا گناہ اپنے سر لے لیتا ہے اور سزا بھگتنے کو تیار ہو جاتا ہے ۔ کائنات کا عظیم ترین معرکہ جو کہ 61 ھجری میں کربلا کے میدان میں پیش آیا جس میں ایک طرف دین حق اور دوسری طرف ظالموں کا ٹولہ تھا تو اس وقت امام حسین نے فرمایا کہ ”میں شہادت کی موت چاہتا ہوں کیونکہ ظالموں کے ساتھ رہناجرم ہے”۔
ہمیں اپنا قانون بدلنا ہوگا یا اپنے آپ کو بدلنا ہوگا ہمیں وہ نظام حکومت چاہئے جس میں بندوں کو گننے کی بجائے ان کے کردار کو ترازو میں تولا جائے ہمیں منافقت کو ختم کرنا ہوگا ہمیں غیر اللہ سے مدد مانگنے اور خود ساختہ آقائوں کو راضی کرنے کی بجائے ایک انتہائی آسان اور سادہ فارمولے پر عمل کرنا ہوگا اور ہر سوال کا حل نکل آئے گا کیونکہ کامیاب لوگوں’ قوموں اور ملکوں کی ترقی کا یہی راز ہے۔ ”ہمیں صرف اپنے حصے کا کام ایمانداری سے کرنا ہے اور اس بات کو عملی طور پر آگے پہنچانا ہے”
اگر ہر شخص صرف اور صرف اپنا احتساب کرے صرف اپنی ذمہ داری لے۔ خواہ وہ صدر ہے’ جج ہے’ زمیندار ہے’ ملازم ہے’ صحافی ہے’ طالب علم ہے’ بیورو کریٹ یا بھٹے پر کام کرنے والا مزدور صرف اور صرف اپنے حصے کا کام ایمانداری سے پھر تبدیلی بھی آئے گی اور ملک میں خوشحالی اور سکون بھی شرط صرف عمل کرنے کی ہے کیونکہ ہزاروں میل کا سفر بھی پہلا قدم اٹھانے سے ہی شروع ہوتا ہے۔ ہم تو وہ قوم ہیں جس نے پاکستان حاصل کرنے کے لئے لاکھوں افراد کی قربانیاں دی ہیں’ مائوں بہنوں کی عزتیں لٹی ہیں’ لاکھوںمعصوم بچوں کو سکھوں کی کرپانوں سے شہید ہوتے دیکھا ہے لیکن نعرہ یہ تھا کہ ”لے کے رہیں گے پاکستان’ بن کے رہے گا پاکستان اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ” اتنی عظیم قوم کبھی غلط فیصلے نہیں کرتی۔
اگر آج ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ ہمیں صرف اور صرف اپنے حصے کا کام ایمانداری سے کرنا ہے تو اٹھارہ کروڑ عوام جو بھی کرے گی سمت درست ہوگی ورنہ حضرت امام حسین کے فرمان عالی شان کے مطابق ”میں شہادت کی موت چاہتا ہوں کیونکہ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا جرم ہے”۔
اب ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا ہے یا شہادت کی موت مرنا۔ فیصلہ قاری پر چھوڑتا ہوں۔
(29 جون 2012ئ)

