گروچیلا اور نظام حکومت

13 سال ago yasir 0

گزرے وقتوں کی بات ہے کہ ایک گائوں میں دو کردار بڑے اہم تھے اور دور دراز کے لوگ بھی ان کو قدر کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ وجہ شہرت اس وقت کے ماحول اور حالات پر ان کی گہری نظر تھی ۔ سیرو سیاحت کا بے حد شوق تھا اور بعض اوقات کئی کئی ماہ جنگلوں صحرائوں اور پہاڑوں میں گزار دیتے لوگ ان کو گرو اور چیلا کہتے تھے ایک دن گھر سے نکلے اور دور دراز کے علاقے میں پہنچ گئے جہاں کا ہر کام ہر بات ہر رنگ ہی نرالا تھا جو ان کے ماحول سے یکسر مختلف تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں ”ہر شے آنے کی تھی” یعنی قیمتی ترین اور کم تر ترین چیزکی قیمت خریدو فروخت ایک ہی تھی یعنی ”ہرشے آنے دی” یعنی صرف پچیس پیسے کی۔
گرو نے چیلے سے کہا یہاں سے بہت جلد نکل چلیں کیونکہ یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں لیکن چیلا نہ مانا اور وہاں رکنے پر اسرار کیا قریباً ایک ماہ بعد اس علاقے میں قتل ہو گیا اور قاتل بھی پکڑ لیا گیا بادشاہ نے عدالت لگائی اور اس کو پھانسی کی سزا سنا دی جب قاتل کے گلے میں پھندا ڈالا تو وہ اس کے فٹ نہ آیا سپاہی نے بادشاہ سے عرض کی کہ پھندا پوری طرح فٹ نہیں آتا تو بادشاہ نے حکم دیا جس شخص کے یہ پھندا گلے میں پورا آتا ہے اس کو پھانسی دے دو۔ قدرت خدا کی وہ پھندا چیلے کے گلے میں فٹ آجاتا ہے اس کو پھانسی دی جانے لگتی ہے تو گرو نے چیلے کو بچانے کے لئے ایک چال چلی اور زور زور سے چلانا شروع کر دیا کہ مجھے پھانسی دو مجھے پھانسی دو۔ بادشاہ نے اس کے چلانے پر حکم دیا کہ اس سے پوچھو یہ کیوں پھانسی پر چڑھنا چاہتا ہے تو گرو نے کہا کہ مجھے ایک دن خواب آیا تھا کہ جو بندہ قتل کے مقدمے میں پھانسی چڑھے گا اللہ اسے اگلے جہان میں اس بادشاہی سے دس گنا بڑی بادشاہی عطا کرے گا یہ سن کر بادشاہ نے کہا میرے گلے میںپھندا ڈال کر پھانسی دے دو جس پر عمل ہوا اور اس طرح چیلے کی جان بچ گئی اور لالچی بادشاہ جان گنوا بیٹھا۔
آج سے سینکڑوں سال پہلے کی وہ بادشاہی جہاں ہر شے آنے کی تھی جہاں حفظ مراتب کا خیال نہ تھا جہاں ہر کام ہر بات اور ہر رنگ ہی نرالا تھا جہاں حکمران بڑی بادشاہی کے خیال میں پھانسی چڑھ جانے کو تیار ہو جائے۔ اگر آج کے پاکستان کو دیکھا جائے’ حالات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں حکومت اور حکمرانی کے اپنے ہی معیار ہیں جہاں امیر اور غریب کیلئے الگ قانون ہے جہاں اٹھارہ کروڑ عوام کے نمائندے توہین عدالت کے خلاف فوراً قانون بنا لیں کہ صدر وزیراعظم’ وزراء اعلیٰ’ گورنرز’ چیف آف آرمی سٹاف اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز عہدے داروں پر توہین عدالت کا قانون لاگو ہی نہیں ہوگا جہاں عوام کے نمائندے غریب کے خون پسینے سے کمایا جانے والا سرمایہ لوٹ رہے ہیں جہاں ہر ٹیکس صرف عوام پر ہی عائد ہوتا ہے جہاں کروڑوں اربوں روپے کی جائیدادیں رکھنے والے حکمران سالانہ صرف تین ہزار سے دس ہزار روپے تک ٹیکس دیتے ہوں جہاں عوام حکمرانوں کو انتہائی برا بھی کہے اور ان کے خلاف جلوس بھی نکالے لیکن ووٹ دے کر انہی لوگوں کو پھر اقتدار میں لے آئے جہاں صرف اور صرف اپنی ہی ذات کا دفاع اولین ترجیح ہو جہاں کا نظام حکومت حفظ مراتب کا خیال رکھے بغیر چلایا جائے جہاں ہر شے آنے کی ہو وہاں ترقی کا کیا معیار ہوگا؟ کیا ہمارے نظام حکومت اور اس بادشاہ کی حکومت میں کوئی فرق ہے؟ اگر نہیں تو ہمیں صرف اٹھارہ کروڑ عوام میں سے صرف اور صرف دو فیصد درست لوگوں کو بااختیار بنا دیں تو یہ ملک دنیا کا عظیم ترین ملک ہوگا ہم دنیا کی عظیم ترین قوم ہوں گی اور پوری دنیا میں بسنے والے لوگ ہمیں کاپی کرنا فخر سمجھیں گے۔
حفظ مراتب کا خیال رکھنا ہوگا اور انصاف کرنا ہوگا ہمیں صرف اور صرف اٹھارہ کروڑ کے ہجوم کو ایک قوم بننا ہے اور صرف دو فیصد اہل لوگ آگے لانے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ انگریز مسلمانوں کو الگ ملک دیں گے۔ ہندو مسلمانوں کی آزادی برداشت کر پائیں گے۔ اس وقت ہم ایک قوم تھے آج ہم ہجوم ہیں اُس وقت قوم کے لیڈر مخلص تھے اور آج مفلس ہیں ہر بار آئی ایم ایف سے قرض لے کر نئی نسل کو قرضوں میں دفن کررہے ہیں۔ آج بھی یہ سب کچھ بدل سکتا ہے اور ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ شرط بس ایک ہی ہے کہ اہل لوگوں کو ملک کی ذمہ داریوں کیلئے منتخب کریں۔
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آج کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
(13 اگست 2012ئ)