ماپدر سلطان بود

13 سال ago yasir 0

فارسی زبان کی ایک ضرب المثل ہے ”ماپدر سلطان بود” یعنی میرا ابا کبھی بادشاہ ہوا کرتا تھا یہ بھی قابل فخر بات ہے کہ ہم کبھی باعزت اور معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم اور قابل فخر بات یہ ہوگی کہ جب میرا باپ میری وجہ سے پہچانا جائے کہ وہ قائد اعظم ہے جس نے پاکستان بنایا وہ قوم کا ہیرو ہے جس نے ایٹم بم بنایا وہ حکمران ہے جس نے نظام عدل قائم کیا وہ کم سن ترین سوفٹ ویئر کی انجینئر بچی ہے جس نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا وہ ہے جس نے کلمہ حق کیلئے جان دے دی لیکن بدقسمتی سے ہم صرف اور صرف اس پر ہی فخر کرتے ہیں کہ میرا ابا کبھی بادشاہ تھا اپنے بڑوں کی کامیابیوں ‘ کامرانیوں کو ضرور اجاگر کرنا چاہئے لیکن ان تمام کے پیچھے چھپے ہوئے درس کو کسی صورت نہیں بھولنا چاہئے جو اس کامیابی کی اساس ہوتا ہے۔ ہم پاکستانی قوم اپنے تمام تہوار مذہبی جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ سرکاری سطح پر کم از کم 21 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز کرتے ہیں اور عمومی سطح پر موٹر سائیکل کی سائیلنسر نکال کر ون ویلنگ کرکے’ بینڈ باجے بجا کر 14 اگست’ 25 دسمبر’ 23 مارچ’ 4 فروری’ 6 ستمبر اور عیدین کی خوشیاں مناتے ہیں۔
ذرا غور کریں تو کیا یہ سب کچھ کرنے میں ہم حق بجانب بھی ہیں؟ کیا ہمارے آبائو اجداد نے جو محنت کرکے ہمیں ایک مقام دیا ہم نے اس میں کوئی اچھا اضافہ کیا؟ کیا ہماری اقوام عالم میں عزت میں اضافہ ہوا؟ کیا ہمارا گرین پاسپورٹ دیکھ کر ہمارے ساتھ اچھا سلوک ہوتا ہے؟ ہمیں بیرونی دنیا کس نام سے جانتی ہے؟ اور ہم خود کیا ہیں؟
کیا ہمارے بڑوں نے قیام پاکستان کیلئے جو نعرہ لگایا تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ پورا ہوگیا ہے؟ کیا ہمارا مستقبل محفوظ ہو چکا ہے؟ قائد اعظم اور اقبال ڈے تو مناتے ہیںکیا ان کے افکار پر عمل بھی ہے؟ عید قربان پر پانچ لاکھ روپے کے جانور تو خرید کر قربانی کر دیتے ہیں لیکن ہمسایوں’ رشتے داروں اور یتیموں کا مال ناحق تو نہیں کھا جاتے؟ کیا بھائی بھائی کو قتل تو نہیں کر رہا؟ ہماری دنیا اور آخرت میں کامیابی کیلئے حضرت محمدۖ کی زندگی بہترین نمونہ ہے کیا اس بنیادی اور مضبوط ترین درس گاہ سے فیض حاصل کررہے ہیں یا نہیں؟
میدان کربلا اور حضرت امام حسین کی عظیم ترین قربانی کا ذکر کرتے ہیں’ ماتم کرتے ہیں زنجیر چلاتے ہیں’ خیمہ بستیاں بناتے ہیں کیا یہ پیغام کربلا ہے بلکہ پیغام کربلا تو سجدہ شبیری سے شروع ہوتا ہے اور سجدہ پر ہی ختم ہوتا ہے ۔ کیا ہم جابر’ظالم’ عیاش’ شرابی’ زانی اور شریعت کے منکر حکمران کے سامنے کلمہ حق کیلئے ڈٹ جاتے ہیں؟ کیا ہمارا انتخاب آج بھی مصلحتوں کا پابند نہیں؟ کیا کبھی ہم نے ان باتوں پر غورکیا ہے؟
اس مضمون کا منتخب فقرہ جو دوران تحریر آمد ہوئی اور جو مجھے بے حد اچھا لگا ”ہم ان کو مانتے ہیں پر ان کی نہیں مانتے”
کاش ہم ان کو ماننے کے ساتھ ساتھ ان کی بھی مانیں پھر دین اور دنیا غلام بن کر قدموں میں ہوگی پھر وقار’ عزت’ عظمت شان’ اور دولت شہرت سب کچھ ہوگا۔ آج مجھے غیر مذاہب پر رشک بھی آتا ہے اور ترس بھی۔ رشک اس بات پر کہ انہوں نے صرف ”ان کی مان کر” دنیا کی ترقی کا راز پا لیا آج یورپ اور امریکہ میںحضرت محمدۖ کی 63 سالہ زندگی کو پڑھایا جاتا ہے۔ خلفائے راشدین اور حضرت عمر فاروق کے نظام حکومت سے راہنمائی لی جاتی ہے ان کی ترقی اور کامیابی پر مجھے رشک آتا ہے یعنی ہمارا سرمایہ حیات لے کر کامیاب ہو گئے۔ لیکن ترس اس بات پر آتا ہے کہ یہ ترقی کامیابی صرف اور صرف دنیا تک محدود ہے اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں وہ جہنم میں جائیں گے کیونکہ ”ان کو نہیں مانتے”یعنی حضرت محمد ۖ کو۔
آج اگر وہ ان کو بھی مان لیں تو دین اور دنیا دونوں میں کامیابی ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں موقع دیا ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھا کر دنیا اور آخرت میں کامیابی ممکن ہے ہمیں کرنا کیا ہے ”ہم ان کو تو مانتے ہیں ان کی بھی مان لیں”
”ماپدر سلطان بود” میرا ابا بادشاہ تھا۔ قابل فخر ہے لیکن ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کیا ہیں؟
(27 اگست 2012ئ)