ڈی سی او نسیم صادق کے جرائم
13 سال ago yasir 0
فیصل آباد میں تعینات رہنے والے ڈی سی او نسیم صادق کی عوام دوستی’ ترقیاتی کاموں’ ناجائز تجاوزات کے خاتمے’ سڑکوں پر گرین بیلٹیں پارکوں کی تزئین و آرائش و دیگر مفاد عامہ کے بے شمار کاموں کی ایک لمبی فہرست بنتی ہے اور آج اگر فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے تمام مکاتب فکر کے لوگ ماسوائے چند کرائے کے ٹٹو مفادپرست ٹولہ اور فیصل آباد کو ذاتی جاگیر سمجھنے والوں کے علاوہ پورا فیصل آباد ڈی سی او نسیم صادق کے تبادلے پر اپنے انداز سے سرکاری اور غیرسرکاری طور پر احتجاج ریکارڈ کروا رہا ہے۔
تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نسیم صادق کا ذاتی کردار اور عملی قول و فعل میں تضاد نہیں تھا اور اس کا کام اس کی عزت کا سبب بن گیا آج لوگ بھوک ہڑتالی کیمپ لگا رہے ہیں خواتین مرد بوڑھے بچے جوان اور صحافی حضرات کالم لکھ کر ایک ایسے افسر کے تبادلے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جو ناجائز قابضین کے خلاف آواز اٹھاتا تھا جو بیس سے بائیس گھنٹے کام کرنے کا عادی تھا جو ڈاکٹر سے دوا لینے جاتا اور ڈاکٹر اسے مکمل ریسٹ کا مشورہ دیتا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ دوائی کی ڈوز بڑھا دیں آرام نہیں کر سکتا صرف کم و بیش سوا دو سال میں آج فیصل آباد کی شکل پہلے سے مختلف نظر آتی ہے یہ اخلاص اورکام سے لگن کا ثبوت ہے۔
یہاں پر چند سوالات جنم لیتے ہیں جن کا تعلق خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے ہے میری ذاتی رائے میں شہباز شریف اپنی ذات میں ایک مکمل مضبوط’ طاقتور اور مستقل مزاجی کے اونچے مقام پر ہیں پھر وہ فیصل آباد کو اپنا دوسرا گھر بھی کہتے ہیں پھر وہ نسیم صادق کو سچا اورکھرا افسر بھی مانتے ہیں پھر وہ تعریفی اسناد بھی دیتے ہیں پھر باخبر بھی ہیں پھر عوام کے احتجاج کی خبریں بھی سرکاری ذرائع سے ان تک جا رہی ہوں گی پھر وہ کون سے ایسے خفیہ ہاتھ ہیں جن سے مجبور ہو کر خادم اعلی ٰپنجاب کمزور فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئے؟
کیا نسیم صادق کا ترقیاتی کاموں میں دلچسپی لینا جرم تھا؟ کیا ناجائز تجاوزات کو ختم کرنا جرم تھا؟ کیا فیصل آباد کو پارکوں اور سیرگاہوں کا شہر بنانا جرم تھا؟ کیا چند مفاد سیاستدان قبضہ مافیا اور بیورو کریٹس اتنے طاقتور ہیں کہ ایماندار افسر کو صرف اس بنا پر تبدیل کر دیا جائے کہ وہ کچھ لوگوںکو ذاتی طور پر پسند نہیں تھا؟ اس کا جواب صرف ارباب اختیار ہی دے سکتے ہیں مجھے اس پر اعتراض نہیں کہ نسیم صادق جیسے افسر کا تبادلہ کیوں ہوا یہ روٹین کا معاملہ ہے افسر آتے اور جاتے رہتے ہیں اعتراض اس بات پر ہے کہ صرف چند لوگوں کی ضد کے آگے مجبور ہو کر خادم اعلیٰ اچھے افسر اور اچھے کام کی تکمیل میں مددگار ثابت نہ ہو سکے۔
میری رائے میں اگر پنجاب کو خوبصورت اور پاکستان کا سب سے ماڈل صوبہ بنانا ہے تو خادم اعلیٰ پنجاب صرف نسیم صادق الیون بنالیں اور خود کپتانی کریں تو آنے والی نسلیں آپ کو اچھے لفظوں سے ہمیشہ یاد رکھیں گی۔
شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔ 1میاں شہباز شریف 10 نسیم صادق خوبصورت اور ماڈل پنجاب اگر فیصل آباد سے زیادہ ضرورت ملتان یا صوبہ کے کسی اور شہر کو ایسے افسر چاہئیں تو صرف اتنا کام کرلیںکہ اس جیسے 10 افسر اور تلاش کر لیں اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ میں ہمیشہ اللہ سے جہاد بالقلم کی دعا کی ہے اور انشاء اللہ مسائل کی نشاندہی’ اچھے کام کی تعریف اور ملک کے خلاف ہونے والی تمام سازشوں پر لکھتا رہوں گا کیونکہ آج کے اس دور میں تلوار سے زیادہ قلم کے جہاد کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ مجھے اس پر قائم رکھے (امین)
(8 اکتوبر 2012ئ)

