درس کربلا
13 سال ago yasir 0
تاریخ انسان کی عظیم’ اہم ترین اور مختصر ترین جنگ جو کہ 10 محرم الحرام سن 61 ھجری بمطابق 10 اکتوبر680 عیسوی کو آج سے 1434 سال پہلے کربلا کے میدان میںلڑی گئی ایک طرف راہ حق کی نمائندگی حضرت امام حسین نے کی جن کی کل تعداد 72 نفوس پر مشتمل تھی جس میں دودھ پیتے بچے سے لے کر بوڑھے’ جوان اور خواتین شامل تھیں جو بے آب و گیاہ علاقے میں بھوکے اور پیاسے تھے اور کسی بھی طور پر جنگ کرنے کی غرض سے کربلا کے میدان میں نہیں آئے تھے لیکن جب یہ جنگ اہل بیت پر مسلط کر دی گئی تو پھر جس شان سے لڑی قیامت تک کے لئے لازوال ہو گئی جبکہ دوسری طرف یزید کی کل تعداد مختلف روایات میں دس ہزار تک لکھی گئی ہے جو تمام ترجنگی اسلحہ سے لیس اور پکے ارادے سے امام حسین کو شہید کرنے کی غرض سے میدان میں آئے تھے۔
یزید اپنی غیر اسلامی غیر شرعی حکومت کو منوانے کے لئے حضرت امام حسین سے بیعت کا اصرار کرتا ہے چونکہ وہ فاسق ظالم’ عیاش’ دین کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والا تھا اس لئے امام حسین نے اسے حکمران ماننے سے انکار کر دیا۔
درس کربلا سبق ہے صبر اور برداشت کا۔ دین کی خاطر مرمٹنے کا جابر اور ظالم حکمران کے آگے ڈٹ جانے کا ظاہری شان و شوکت کے مقابلے میں آخری زندگی کو ترجیح دینے کا۔ہرممکن حد تک جنگ و جدل سے بچنے کا’ اپنے موقف کو واضح کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کا’ شان سے جینے اور شان سے مرنے کا’ مشکل ترین حالات میں بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کا’ بزرگوں’ بچوں’ جوانوں’ شیر خوار مجاہدوں اور باعصمت خواتین کے دین کی خاطر سب کچھ قربان کر دینے کا’ دین اور دنیا میں حکمران کی پہچان کرنے کا’ سچ اور جھوٹ کے فرق کا۔
یہ ایک ایسا معرکہ ہے جو قیامت تک فراموش نہیں کیا جا سکتا جس کے اثرات قیامت تک قائم رہیں گے جس سے اسلام اور کفر میں ہمیشہ کے لئے واضح فرق ظاہر ہو گیا ۔ کیا امام حسین اس بات سے واقف نہ تھے کہ انہیں کربلا میں شہید کر دیا جائے گا؟ کیا اہل بیعت کے 72 نفوس کی قربانیاں بغیر کسی مقصد کے حصول کیلئے تھیں؟ کیا امام حسین کا انکار کسی ذاتی وجوہ سے تھا؟ کیا آپ امام حسین یزد کی بیعت کرکے زندگی نہیں بچا سکتے تھے؟ جن کے نانا حضرت محمدۖ نے دین کے مکمل اور کامل ہونے تک اہل قریش کے مظالم برداشت کئے جنگیں لڑیں صحابہ کرام شہید ہوئے جن کے والد حضرت علی کو شہید کر دیا گیا جن کے بڑے بھائی حضرت حسن کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا لیکن قربان جائیں اہل بیعت پر۔ دین کے احیاء کے لئے وہ کیسے اس بیعت کو تسلیم کر سکتے تھے؟ اورکیسے اس دین میں غیر شرعی تبدیلی کو برداشت کر سکتے تھے؟ وہ یزد جو ظاہری جنگ جیت کر بھی ہار گیا اور حضرت امام حسین ظاہری جنگ ہار کر دین بچا گئے اور قیامت تک کے لئے لازوال ہو گئے۔
آج ہم اس نفسا نفسی کے عالم میں امام حسین کی شہادت اور درس کربلا سے کتنا درس لیتے ہیں۔ دین کی خدمت کے لئے ذاتی مفادات کو کتنا قربان کرتے ہیں؟ چھوٹے سے دکھ اور تکلیف میں درس کربلا کا فلسفہ صبر پر کتنا عمل کرتے ہیں؟
بدنصیبی ہے کہ آج ہم حضرت امام حسین کو مانتے ہیں پر امام حسین کی نہیں مانتے۔ آج ہم کربلا کا سوگ مناتے ہیں پرکربلا کے فلسفے کو بھول گئے ہیں ‘ آج ہم پاک دامن خواتین اور بالخصوص بی بی زینب کے کردار کی عظمت کو تو مانتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے۔ امام حسین کا تو وقت آخر بھی سرقلم ہوا تو نماز میں سر مبارک نیزے کی نوک پر قرآن کی تلاوت کرتارہا۔ معصوم پیاسے اللہ کی رضا میں راضی ہونے پر نازاں ہیں ۔
آج ہم منتیںمانتے ہیں’ ماتم کرتے ہیں’ غم کا اظہار کرتے ہیں۔مسجدوں’ امام بارگاہوں اورگلی کوچوں میں غم حسین مناتے ہیں۔
اے کاش کہ اس کربلا سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا درس لے لیں۔ صبر اور برداشت کی تعلیم حاصل کر لیں۔ دین کی سربلندی کیلئے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ فاجر’ فاسق’ ظالم’ جاہل اور عیاش حکمرانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ کر لیں۔ ذاتی مفاد اور دنیاوی عیش و آرام کی بجائے اخروی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آج ہم بڑی آسانی سے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا دیتے ہیں اور صرف اپنے فرقے اور عقیدت کو درست مانتے ہیں ۔ آج ہم مسجدوں’ امام بارگاہوںمیں بم گرا رہے ہیں’ معصوم لوگوں کو شہید کررہے ہیں اور فرقہ واریت کو ہوا دے کر ہم کون سے دین کی حمایت کررہے ہیں؟
مجھے حضرت محمدۖ کا سفر طائف یاد آتا ہے جب اہل طائف آپ کی تبلیغ کے جواب میں پتھر برساتے ہیں آپۖ کو خون میں نہلا دیتے ہیں۔ فرشتہ خدمت میں حاضر ہوتا ہے کہ حکم دیں تو میں اس بستی کوصفحہ ہستی سے مٹا دوں لیکن آپۖ کمال شان سے کہتے ہیں کہ شاید ان کی آنے والی نسلوں سے دین کے نام لیوا پیدا ہوج ائیں۔ پھر ہم اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر دین کے سنہری اصولوں کو کیوں بھول رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں’ نبیوں’ ولیوں’ صحابہ اکرام اور امتی کے درجے مقررکئے ہیں۔ ہمیں ان معزز ہستیوں کے درجات کو کم یا زیادہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ آج اگر دین زندہ ہے تو کربلا کے شہیدوں کے صدقے سے۔
اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
(3ستمبر2012ئ)

