ضمیر بنام عوام حاضر ہوں

13 سال ago yasir 0

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عین فطرت پر پیدا کیا ہے اور جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو وہ مسلمان اور عین فطرت کا مظہر ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے اور اس کے اردگرد کا ماحول اسے ہندو’ سکھ’ عیسائی’ پارسی’ یہودی یا مسلمان بنا دیتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی ضمیر انسان کو اچھے اور برے کی تمیز دیتا ہے اور کسی بھی غیر مناسب کام پر اندر سے آواز آ جاتی ہے کہ یہ درست نہیں لیکن ہم اس کو چھوڑ کر وہ کرتے ہیں جو ظاہر میں اچھا لگتا ہے جب ہادی برحق حضرت محمدۖ اس دنیا میںتشریف لائے اور دین کی تعلیم دینا شروع کی تو اس وقت کے کفار برملا اس کا اظہار کرتے تھے کہ آپۖ جو کہتے ہیں وہ حق ہے سچ ہے۔ لیکن ہمارے باپ دادا صدیوں سے بتوں کی پوجا کرتے آ رہے ہیں ہم اس کو نہیں چھوڑ سکتے یعنی ضمیر کی آواز کو سن کر بھی بھلا دیتے ہیں۔ کائنات کا عظیم ترین معرکہ سن 61 ھجری میں کربلا کے میدان میں پیش آیا ۔ حضرت امام حسین نے اپنے قول و فعل سے یزیدی فوجوں اور عوام کے ضمیر کو جگایا ۔ سچ اورجھوٹ کے فرق کو واضح کیا اور اہل کوفہ کے دل تو حضرت امام حسین کے ساتھ تھے لیکن تلواریں یزید کے ساتھ یعنی ضمیر کی آواز پر کسی مصلحت اور دنیاوی فائدے کو ترجیح دی گئی اور دونوں جہاں برباد کر لئے۔
آج پاکستان نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے ۔ اندرونی اوربیرونی خطرات پاکستان کو کمزور کررہے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں دست و گریبان ہیں۔ تمام دینی پارٹیاں مدرسے گروہ بندی کا شکار ہیں۔ آج اٹھارہ کروڑ عوام ذات پات’ رسم و رواج اور برادریوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ آج کل کی بجائے جزو کو بچانے پر زور دیا جاتا ہے۔ آج زبان کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی اور سرائیکی صوبہ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دمڑی کو بچانے کے لئے چمڑی کو پیش کیا جا رہا ہے۔ آج پھر ہم عوام اپنے بہت تھوڑے ذاتی مفاد کی خاطر ضمیرکی آواز کو سننے سے انکاری ہیں۔ آج ہم بارود کے ڈھیر پر بیٹھ کر امید کرتے ہیں کہ پھول کھلیں گے اور نقصان نہیں ہوگا۔ آج ہم دھتورے کے بیج بو کر آموں کی امید لگا لیتے ہیں۔کرپٹ’ جاہل’ ان پڑھ اور ظالم شخص کو ووٹ دے کر حکمران اور چوہدری بنا لیتے ہیںاور پھر امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے شہد کی ندیاں بہائے گا۔ وہ علم دوست ہو گا وہ انصاف کرے گا وہ ملک کی خدمت کرے گا ۔
ہم معجزوں پر یقین کرنے والے لوگ ہیں کہ اللہ اپنی قدرت سے یہ سب تبدیل کر دے جبکہ ہم اپنی ڈگر سے باز آنے والے نہیں اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اٹل ہے کہ میں اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کے لئے کوشش نہ کرے پھر تبدیلی کیسی؟ ترقی کیسی؟ اور ملک میں خوشحالی اور سکون کیسا؟ پھر آج کا ترقی یافتہ دور اور قبل از اسلام جہالت کے دور میں کیا فرق ہے آج بھی ہم اپنے منتخب نمائندے صرف اس بنا پر ووٹ دے کر کامیاب کروا دیتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا ان کے حمایتی ہیں’ ہماری برادری کا بندہ ہے’ ہمارے گائوں کا رہنے والا ہے اور تھانے سے ہمارے لڑکے کوچھڑا کر لایا تھا ۔ کیا آپ کا ضمیر اس بات کو قبول کرتا ہے؟ کیا جس کو حکمران بنایا جائے اس میں ایسی خوبیاں تلاش کی جاتی ہیں؟ کیا ہم آج بھی ان جاگیرداروں’ وڈیروں’ سرمایہ داروں’ چوہدریوں نسل در نسل ملک کو لوٹنے والوں اور سیاسی مداریوں کے غلام نہیں؟
بقول علامہ اقبال! ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
لیکن کب جب ضمیر کی آواز سنی جائے گی جب برادریوں سے آزاد ہو کر صرف ملک کے مفاد کے لئے سوچا جائے گا جب انفرادی ترقی کی بجائے اجتماعی ترقی کو ترجیح دی جائے گی جب ووٹ کی طاقت سے چور ڈاکو لٹیروں اور ذاتی مفاد حاصل کرنے والوں کو چھوڑ کر ملکی مفاد میں کام کرنے والے لوگوں اور پارٹیوں کو آگے لایا جائے گا آج میں اٹھارہ کروڑ عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ان آنے والے الیکشن میں خواہ جب بھی ہوں ضمیر کی آواز سن لیں اور جو اندر سے آواز آئے اس پر عمل کر دیں ترقی کا عمل شروع ہو جائے گا ۔ ووٹ دیتے وقت صرف گائوں کے چوہدری کو دیکھنے کی بجائے اس پارٹی کے منشور کو دیکھ لیں اس پارٹی کی ماضی میں کارگزاریاں دیکھ لیں’ اس پارٹی کے سربراہوں کو دیکھ لیں کہ انہوں نے کیا کیا گل کھلائے ہیں اور آپ کا ووٹ صرف اس گائوں کے چوہدری کا ووٹ نہیں ہوگا بلکہ اس پارٹی کے سربراہ کا ہوگا جس نے آپ کو نیاپاکستان دینا ہے یا اس کی رگوں سے بچا کھچا خون بھی چوس لینا ہے اور آپ کا ووٹ یا تو ملک کو ترقی کی طرف لے چلے گا یا اندھیروں کی جانب۔
یاد رکھیے! آپ کے ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہونے والے اگر اچھا کام کریں گے تو آپ کے حق میں بہتر ہوگا ورنہ ملک و قوم کے خلاف ہونے والے ہرجرم میں آپ بھی برابر کے شریک ہوں گے اپنے ووٹ کو ضمیر کی آواز میں بدل دیں۔ صرف ایک بار ضمیرکی عدالت میں اپنے آپ کو پیش کردیں کیونکہ ضمیر بنام عوام کا نقارہ بج چکا ہے۔
(19 نومبر 2012ئ)