چورنوں پھانسی قاتل نوں بری

13 سال ago yasir 0

ملک میں اس وقت الیکشن 2013ء ‘الیکشن کمیشن کی کارکردگی’ اعلیٰ عدلیہ کا مانیٹرنگ سسٹم’ سیاسی پارٹیوں کا جوڑ توڑ’ 63-62 کی شق پر اطلاق’ جعلی ڈگری والوں کوجیل کی سزا’ عوامی سروے’ میڈیا کی رپورٹس ایچ ای سی کی کارکردگی اور ریٹرننگ آفیسرز کے دلچسپ سوالات نے ماحول کو بہت حد تک گرما دیا ہے اور ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ مسائل کے بڑھنے کی نشاندہی کررہا ہے۔
آزاد عدلیہ’ آزاد میڈیا اور آزادالیکشن کمیشن کا یہ ٹرائی اینگل کیا ملک کو ان مسائل سے نکالنے میں کامیاب ہو سکے گا؟ یہ ہے آج کا سوال جس کو پاکستان کے ہر ذی شعور شخص سوچتا ہے میں ان پیچیدگیوں میں جائے بغیر صرف چند گزارشات سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ کرپٹ’ بددیانت اور ملک کو لوٹنے والوں کا حساب ہر حال میں ہونا چاہئے اور کسی قسم کی رورعایت نہیں دینی چاہئے۔
ملک کے خلاف اس کی سا لمیت اور نظریہ پاکستان کی مخالفت کرنے والوں کا احتساب بھی ہونا چاہئے لیکن یہ احتساب کراس دی بورڈ ہو تو ملک و قوم کے لئے فائدہ مند اور آنے والی نسلوں پر احسان عظیم ہوگا ورنہ زہر قاتل جب 62 اور 63 کا اطلاق کرنا ہے تو تمام مکاتب فکر ارباب اختیار’ عدلیہ’ انتظامیہ فوج’ سول سرونٹس’ بیورو کریٹس’ صحافی برادری وکلاء اور دیگر لوگوں پر کیوں نہیں لگائی جاتی؟
میری رائے میں اگر اس کا اطلاق صرف چند سو جعلی ڈگری ہولڈرز تک ہی محدود رہ گیا تو کروڑوں روپے کے گھپلے کرنے والے ملک کا قانون توڑنے والے ‘ اداروں کو آپس میں لڑانے والے ٹیکس چور سب بچ جائیں گے جس سے انارکی پھیلے گی۔ اگر احتساب کا عمل شروع کرنا ہے تو پرویز مشرف سے شروع کریں جنہوں نے دوبار آئین کو منسوخ کیا۔ اعلیٰ عدلیہ کو کام سے روکا جن پر بے نظیر’ اکبر بگٹی کے قتل کا الزام ہے جنہوں نے صدر کے عہدے پر رہ کر سیاسی پارٹی تشکیل دی پھر موجودہ صدر’ پی سی او ججز ریٹائرڈ آرمی آفیسرز کو بھی اس دائرے میں لایا جائے خفیہ فنڈز کا استعمال کرنے والے دو دو عہدے رکھنے والوں کا حساب بھی ضروری ہے اگر آئین کی ایک شق پر پورا نہ اترنے والے جعلی ڈگری ہولڈرز ہی ایم پی اے یا ایم این ے کو تین سال قید ہو سکتی ہے تو جس نے پورا آئین توڑ ڈالا ہو اس کے خلاف سوموٹو ایکشن کیوں نہیں لیا جا رہا؟ اس کو پروٹوکول دینے کی وجہ سمجھ سے بالا ترہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر یہی ڈگر رہی تو یہ انتخاب ہی کہیں کھٹائی میں نہ پڑ جائیں اور عوام سے یہ آخری حق بھی چھین لیا جائے۔ صادق اورامین کی شرط صرف سیاستدانوں تک ہی محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں پر اس کا اطلاق ضروری ہے ورنہ آنے والا مورخ شاید یہ لکھ دے کہ آزاد میڈیا’ آزاد عدلیہ اور آزاد الیکشن کمیشن نے ”چورنوں پھانسی اور قاتل نوں بری” کر دیا۔
اس وقت ملک کسی نئی آزمائش کا محمل نہیں ہو سکتا ہمیں اعتدال میں رہ کر اپنے فرائض منصبی کوپوراکرنا ہے 62 اور 63 ایک خاص وقت میں ایک خاص ایجنڈے کو پرموٹ کرنے اور مخصوص طرز فکر کی پیداوار’ جس کا سیاق و سباق سامنے رکھ کر نتیجہ نکالنا چاہئے۔ مرحوم ضیاء الحق سابق صدر نے اپنے مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے اور کچھ ناپسند لوگوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے یہ شقیں قانون میں ڈالی تھیں میں قلی طور پر اس کے خلاف نہیں ہوں لیکن اس میں بہت کچھ ایسا ہے جس میں تبدیلی اور ترامیم کی بہت گنجائش ہے۔
خدارا !اٹھارہ کروڑ عوام کے حق رائے دہی دینے کا موقع دیں کھرے اور کھوٹے کا فرق نکل جائے گا عوام اس قابل ہو چکے ہیں کہ اچھے اور برے کو پہچان سکیںآزاد الیکشن کمیشن’ آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ کی مثلث کہیں نا چاہتے ہوئے اور نادانستہ طور پر ملک کی اٹھارہ کروڑ عوام سے رائے دہی کا یہ خوبصورت موقع ضائع نہ کر دیں۔
(8 اپریل 2013ئ)