کمبل اور ناراض گروپ
13 سال ago yasir 0
یہ موسم بہار کا خوبصورت دن تھاہر طرف رنگ برنگے پھولوں کی مہک نے ماحول کو خوبصورت اور معطر کر دیا تھا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی اور نہر کنارے قطار اندر قطار لگے درختوں نے ماحول کو سحر انگیز بنا دیا تھا۔ نہر کے پانی کی روانی اور قریبی کھیتوں میں ہل چلاتے بیلوں کی گھنٹیوں کی آواز نے ایک جادوئی ماحول بنا رکھا تھا ایسے میں دو دیہاتی اپنے ماحول میں خوش گپیاں لگاتے ہنستے کھیلتے جا رہے تھے کہ ایک کو نہر میں خوبصورت سی کمبل نماچیز تیرتی نظر آئی ایک نے پہل کی اور نہر میں چھلانگ لگا دی اور اس کمبل کو پکڑ کر باہر لانے کی کوشش کرنے لگا۔ دراصل وہ کمبل نما چیز سیاہ رنگ کا بھالو (ریچھ) تھا لیکن دیہاتی کو پانی میں تیرتا ہوا کمبل دکھائی دیا۔ دیہاتی جوں جوں کمبل کو باہر لانیکی کوشش کرتا وہ اسے گہرے پانی میں کھینچ کر لے جانے لگا باہر کھڑے دیہاتی نے پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے زور سے آواز دی کہ کمبل کو چھوڑ دو اور باہر نکل آئو تو پانی میں پھنسے ہوئے دیہاتی نے کہا کہ ”میں تو کمبل کو چھوڑ رہا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا” ۔
یہ ایک محاورہ ہے جو اس وقت کی سیاسی پارٹیوںاور ناراض گروپوں پر فٹ بیٹھتا ہے آج آپ غور کریں الیکشن کاوقت ہے تمام پارٹیاں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے دعوے کررہے ہیں سب کو ساتھ لے کر چلنے میں ناکام ہونے والی پارٹیاں ناراض امیدواروں سے زچ ہو گئی ہیں اور ہر ممکن کوشش بھی’روٹھے ہوئے کارکنوں کو اپنے سیاسی جھنڈے کے نیچے اکٹھا کرنے میں فیل ہو گئی ہیں اور اس دیہاتی کی طرح جو بھالو کو کمبل سمجھ کر پکڑنے کے چکر میں نہر میں کود جاتا ہے ان سیاستدانوں نے اپنی کامیابی کیلئے ہر کسی کو لارا لپا لگا کر ساتھ ملانے اور جیتنے کے خواب دیکھ کر الیکشن مہم کا آغاز کیا تھالیکن مخالفت میں آزاد حیثیت سے آنے والے لوگوں نے ان کی سیاسی کامیابی کو مکمل ناکامی میں بدل دیا ہے اب یہ سیاسی پارٹیاں تو ان کمبلوں کو چھوڑنا چاہتی ہیں لیکن یہ کمبل ان کو نہیں چھوڑ رہے اور اپنی انا ‘ کامیابی اور مخالفت میں ساری حدیں پار کر گئے ہیں۔
ملک کے دیگر تین صوبوں میں دہشت گرد کھلے عام جہاں چاہتے ہیں جس کو چاہتے ہیں نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے’ سیاسی پارٹیاں’ سیاستدان’ ووٹر اور عام شہری اس ناگہانی آفت سے خوفزدہ ہیں۔ یہ دھماکے کرنے والے کس کے ایماء پر ایسا کررہے ہیں؟ یہ کیا چاہتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے ملک کو نقصان پہنچانے والے غیر ملکی عناصر ان کا نام استعمال کرکے ہمیں دنیا میں تنہا کرنا چاہتے ہوں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے تمام تر ذاتی مفادات کو چھوڑ کر ملکی مفاد میں اکٹھا ہو کر ملک و قوم کے لئے بہترین فیصلے کئے جائیں۔
آخر میں ان عناصر سے اپیل کرتا ہوں جن کا نام دہشت گردی میں لیاجاتا ہے خدارا ملک’ قوم’ ادارے اور یہ آزادی قریباً 20 لاکھ انسانوں کی قربانی’ لاکھوں مائوں بہنوں کی عزتیں لٹا کر اور لاکھوں معصوموں کونیزوں کرپانوں اور بھالوں سے شہید کروا کریہ پاکستان حاصل کیا ہے اور لٹے پھٹے قافلے پاکستان میں آئے آج ان شہداء کی روحیں ہم سے سوال کرتی ہیں 1947ء میں پاکستان بنانے کا مقصد یہ تھا؟ کیا ہم نے اس وقت غلط فیصلہ کیا؟ یا آج ہمارا فیصلہ غلط ہے؟
فیصلہ ہمارے بزرگوں کا پاکستان بنانا سو فیصد درست تھا اورہے لیکن ہم ان کی اس محنت کو ضائع کررہے ہیں۔
(7 مئی 2013ئ)

