بدلتا ہے رنگ آسماںکیسے کیسے
13 سال ago yasir 0
وہ لوگ جو کل تک مرکزی قائدین کا نام لینے سے پہلے ان کی تعریف میں پتہ نہیں کہاں کہاں سے الفاظ ڈھونڈ کر لاتے تھے اور ان کو باقی دنیا سے الگ ہی مخلوق کا درجہ دیا کرتے ہیں جن کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے تھے اور جن کے خلاف بات کرنا تو دور کی بات تھی بات سننا بھی گوارہ نہیں کیا جاتا تھا آج عجب تماشا دیکھنے میں آ رہا ہے انہی ناخدائوں کے خلاف نعرے بازی کی جا رہی ہے احتجاج کیا جا رہا ہے اور اپنی اہمیت جتانے کے لئے کل تک ساتھ نبھانے کی قسمیں کھانے والے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ گئے ہیں یہ مسئلہ اصل ہے کیا اور اس کے اثرات کیا ہوں گے میرے نزدیک یہ مکافات عمل ہے اور ہر عمل کا کوئی نہ کوئی ردعمل ہوتا ہے۔
تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنا قد اونچا کرنے کے لئے ہر صوبے سے اپنی طاقت کو بڑھانے لوگوں کو ساتھ ملانے اور آئندہ الیکشن میں ریکارڈ جیت حاصل کرنے کے لئے مفاد پرست سیاستدانوں سے لے کر ایک عام ورکر تک کو وعدے اور لارے لپے لگائے کہ اپ کو ایم پی اے’ ایم این اے کا ٹکٹ دیں گے آپ کویہ فائدہ اورجیتنے کے بعد فلاں کام کا ٹھیکہ اور تمہارے بچے کو چپڑاسی لگانے تک کے وعدے کرکے اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش میں تمام اخلاقی تقاضے بھول گئے ۔ آج مجھے ترس آتاہے ان سیاسی راہنمائوں پر جو اس وقت زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں اور کوئی فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے کہ اگر کسی ایک فرد کو ٹکٹ دے دیا تو باقی پانچ جن سے وعدے کئے تھے کہیں مخالف نہ ہو جائیں اور کسی دوسری پارٹی کے ٹکٹ یا آزاد حیثیت سے ہمیں نقصان نہ پہنچا دیں۔ اس مشکل میں سب سے زیادہ میاں نواز شریف اور پھر عمران خان ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں صرف اس تاڑ میں ہیں کہ باقی رہ جانے والے ناراض سیاستدانوں کو اپنے ساتھ کیسے ملایا جائے؟
مجھے افسوس ہے ان وفاداریاں بدلنے والے سیاستدانوں پر جو صرف ذاتی مفاد کیلئے عوام کو بے وقوف بناتے چلے آ رہے ہیں کبھی برادری کے نام پر اور کبھی پیسے کی چمک کے ساتھ’ یہ تماشا کب تک چلے گا؟ کون اس بھٹکی ہوئی قوم کو رستہ دکھانے آئے گا؟ اور کون اس بے ڈھنگی چال کو ختم کرے گا؟ جب یہ سیاستدان’ حکمران اوروڈیرے اپنے مفاد کیلئے وفاداریاں تبدیل کر سکتے ہیں تو عوام ان بے وفا بتوں کی پوجا کرناکیوں نہیں چھوڑتی؟ کیا ہمارا ان سے نکاح ہوا ہے کہ جہاں یہ لوگ جائیں گے ہم وہیں جائیں گے؟ کیا ہماری اپنی کوئی سوچ نہیں؟ کیا ہمارا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں؟ اورکیا ہم عوام اس قابل بھی نہیں کہ اپنی مرضی سے اپنے نمائندے چن سکیں۔ ہم کب تک اس پھتو کی طرح زندگی گزاریں گے جس کے چوہدری نے کہا کہ پھتو تم کُرتے اور دھوتی میں اچھے لگتے ہو تو اس نے کرتا دھوتی پہننا شروع کر دیا اور گائوں کے دوسرے چوہدری نے کہا کہ پھتو تمہیں دھوتی کرتا اچھا نہیں لگتا تو اس نے اتار دیا۔
خدارا کب تک ہم ان کی مانتے رہیں گے ایک وڈیرے کے کہنے پر استعمال اور دوسرے کے کہنے پر چھوڑنے کی عادت کب بدلے گی۔ ہماری اپنی سوچ کہاں ہے؟ کل تک شیر اور میاں نواز شریف کو ڈرائنگ روم میں اکٹھے فوٹو سیٹ میں رکھتے تھے آج ٹکٹ نہ ملنے پر وہ سب کچھ بھول گئے کیا یہی سیاست ہے؟ ان سیاسی ہیرا پھیریوں میں عوام ایک دفعہ پھر فیصلہ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے راہنما ٹکٹ دینے سے خوفزدہ’ نمائندگان ٹکٹ نہ ملنے سے خوفزدہ’ عوام ووٹ دینے سے خوفزدہ’ الیکشن کمیشن انتخاب کرانے سے خوفزدہ’ نگران حکمران اپنی ساکھ بحال رکھنے اور لاء اینڈ آرڈر کو قام رکھنے میں خوفزدہ۔ گیارہ مئی کا دن خیریت سے گزر جانے سے خوفزدہ’ عوام درست فیصلہ کرنے سے بھی خوفزدہ نظر آتی ہے جس کا اصل سبب یہ سیاسی ہیرا پھیریاں ہیں۔
(22 اپریل 2013ئ)

