تم دیا جلائے رکھنا
12 سال ago yasir 0
کائنات میں رہنے والا ہر ذی شعور بلکہ چرند پرند حشرات الارض اور دیوہیکل وحشی درندوں تک زندگی گزارنے اور گزر بسر کرنے کے لئے گھر بناتے ہیں۔ بعض اس گھر کو نسل در نسل استعمال کرتے ہیں اور بعض خانہ بدوش زندگی گزارتے ہیں اور نئی جگہ نئے مقام کی تلاش میں رہتے ہوئے بھی سر چھپانے اور وقت گزاری کے لئے گھر ضرور بناتے ہیں اس گھر کی اہمیت اس شخص سے زیادہ کون جان سکتا ہے جس نے تمام عمر محنت مزدوری کرکے فاقوں میں رہ کر مسائل کا مقابلہ کرکے چھوٹا سا گھر بنایا ہو اور قدرت خدا کی زلزلہ آئے اور اس کا گھر صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔
برصغیر پاک و ہند میں مسلمان تجارت کی غرض سے آئے اور اس خطے کو مستقل رہائش گاہ بنا لیا۔ تاریخ مسلمانوں کے عروج و زوال سے بھری پڑی ہے کبھی برصغیر کے عظیم ترین حکمران فاتح اور بادشاہ’ تو کبھی ہندوئوں انگریزوں کی غلامی’ راجائوں’ مہاراجائوںکی پرستش سے لے کر غلامانہ اور ذلت آمیز زندگی گزارنا بھی تاریخ کا حصہ ہیں ایسے میں تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک کا مشکل ترین دور جس میں آزادی کی جنگ لڑنا یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اورکیسے ممکن ہوا؟ اور اس کے پیچھے کونسا جذبہ تھا؟ آج میرا دل خون کے آنسو روتاہے آج میں تصور کی نظر سے پیچھے دیکھتا ہوں تو ہمارے آبائو اجداد عالم بالا میں ہم پرتف کرتے نظر آتے ہیں اور ان کی دل گزاد چیخیں’ کرپانوں’ تلواروں سے قتل کر دیئے جانا’ بچوں کو مائوں کے پیٹوں میں کرپانوں سے شہید کر دیئے جانا’ نوجوان’ مائوں’ بہنوں کی آہ و بکااور ہندوئوں’ انگریزوں کی ہوس بھری نظریں مجھ سے سوال کرتی ہیں کہ کیا ہم نے اپنی عزتیں اس لئے لٹوائیں ہم اس لئے شہید ہوئے ہمیں اس لئے باندھی بنایا گیا ہم نے اپنے گھر بار مال اسباب عزت عظمت سب اس لئے چھوڑے تھے ہم نے یہ نیا گھر جس کو اپنی عزت عظمت غیرت’ بہادری اور دین کا قلعہ مانا ہے ہم نے جس پاکستان اور جس گھر کے لئے یہ سب کچھ برداشت کیا آج اس گھر کے لئے یہ سب کچھ برداشت کیا آج اس گھر میں بسنے والے خود محفوظ نہ ہوں گے آج مجھ سے قائد اعظم کی روح اس انتھک محنت’جذبہ حب الوطنی’ ملک کے لئے غیر متزلزل ارادے ایک کمزور بیمار اور تن تنہا شخص جس نے قریباً بیس کروڑ مسلمانوں کی آزادی یعنی اپنے نئے گھر کا مقدمہ کس شان سے لڑا کہ اس وقت کے بڑے معتبر سیاستدان ولب بھائی پٹیل نے کہا کہ اگر مسلمانوں کے پاس سو گاندھی ہوتے اور ہندوئوں کے پاس صرف ایک جناح ہوتا تو پاکستان کبھی نہ بنتا۔
مجھ سے سوال کرتی ہے اور میں آج بے حد شرمندہ ہوں جس شخص نے بیس کروڑ مسلمانوں کے گھر دیئے ایک پاکستان دیا آج اس کے ذاتی گھر کو اس کے احسانوں تلے دبے ناعاقبت اندیشوں نے تباہ و برباد کر دیا قائد اعظم ریذیڈنسی کو بموں سے تباہ کر دیا۔ آہ
آج میرا ملک میرا گھر ہر روز لٹتا ہے’ گولے چلتے ہیں’ لاشیں گرتی ہیں۔ مساجد’ مدارس’ ہسپتال الغرض ہر طرف خون بکھرا ہوا ہے طالب علم گھر سے علم کے حصول کے لئے نکلتا ہے راستے میں خودکش بمبار کی وجہ سے شہید ہو جاتا ہے میرے لئے یہ دکھ ایک مسلسل عذاب بنتا جا رہا ہے اور میں ہر روز جیتا ہوں اور ہر روز مرتا ہوں لیکن اس سے بھی شدید دکھ یہ ہے کہ میرے گھر پاکستان کوجلانے والے’ خون آلود کرنے والے کوئی غیر نہیں میرے مسلمان بھائی ہیں ہم لڑ سکتے ہیں’ مقابلہ کر سکتے ہیں مار سکتے ہیں یا مر سکتے ہیں جب ہمارا مقابلہ بے دین لوگوں’ اسلام کے مخالف لوگوں اور سرحد پار کے دشمنوں سے ہو لیکن میں اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنے ہی بھائی سے نہ لڑ سکتا ہوں نہ جیت سکتا ہوں یہ کالی رات کب ختم ہوگی یہ حکمران کب جاگیں گے؟ یہ میرے مسلمان بھائی جو اپنے آپ کو نقصان پہنچا کر فاتح بننا چاہتے ہیں ہیں کب سوچیں گے؟ آخرہمارا کون اصل دشمن ہے؟ اورہم کب تک ان دیکھے دشمن سے لڑتے رہیں گے؟
اگر آج میں 2013ء میں بیٹھ کر 1947ء کو چشم تصور سے دیکھوں تو اس وقت ہمارا دشمن واضح تھا ہمارے لیڈر حقیقی لیڈر تھے عوام ایک ارادہ کر چکی تھی اس وقت اجتماعی کامیابی ہی اصل کامیابی تھی آج دشمن غیر نہیں ہم خود ہیں لیڈر حقیقی نہیں نقلی ہیں عوام کی سوچ اجتماعی نہیں انفرادی ہے اس وقت ہم نے کمزور ترین ہو کر بھی کامیابی حاصل کر لی تھی آج ہم طاقتور اور ایٹمی پاور ہو کر بھی ناکام ہیں یہ سب کچھ درست ہونا ہے ہمیں ایک عظیم ترین قوم بننا ہے مسائل پر قابو پانا اور دنیا کو دکھانا ہے کہ 1947ء اور 2013ء میں کچھ فرق نہیں۔ بس
تم دیا جلائے رکھنا
تم دیا جلائے رکھنا
(24 جون 2013ئ)

