ایک تھا بادشاہ

12 سال ago yasir 0

گزرے زمانوں میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا اس کی رعایا اس سے بہت خوش تھی اور وہ اپنے فرائض کو بہت ایمانداری سے چلا رہا تھا ایک دن ایک اجنبی اس کے دربار میں حاضر ہوا اور بھرے دربار میں بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اے حاکم وقت تجھے کوئی ہنر بھی آتا ہے یا صرف بادشاہی کے شوق میں زندگی برباد کررہا ہے۔ قریب تھا کہ ایسے گستاخ اجنبی کو قتل کر دیا جاتا لیکن بادشاہ نے اس کی بات کو تحمل سے سنا اور کہا کہ نہیں مجھے کوئی ہنر نہیں آتا تو اجنبی نے کہا سیکھ لے کام آئے گا یہ کہہ کر وہ دربار سے نکل گیا دن مہینوں میں اورمہینے سالوں میں تبدیل ہوتے رہے ایک دن اس کی فوج نے بغاوت کر دی اور سپہ سالار نے بادشاہ کو قیدی بنا کر حکومت پر قبضہ کر لیا اور اس بادشاہ سے سب کچھ چھن گیا اور باقاعدہ قیدیوں والا لباس پہنا کر اس سے مزدوری کروائی جانے لگی اس نے قید خانے کے داروغہ سے کہا کہ مجھے مصلے بنانا آتے ہیں (جن پر نماز پڑھتی جاتی ہے) جن کے منہ مانگے دام مل سکتے ہیں بشرطیکہ مجھے چند چیزیں بازار سے خرید کر دے دیں قیدی کی اس بات کو داروغہ نے مان لیا اور اس کو مطلوبہ اشیاء دے دیں چند دنوں کے بعد قیدی نے داروغہ سے کہا کہ مصلہ (جائے نماز) جس کی کل قیمت ایک روپیہ ہے۔ لیکن فلاں شہر کے فلاں حاکم کویہ مصلہ سوروپے میں فروخت کرنا اور کہنا کہ یہ ایک خاص قیدی نے بنایا ہے جس میں تمہارے لئے کچھ خاص ہے اور اس قیدی نے کہا کہ تمہیں ہی یہ جائے نماز دے کر آئوں۔
المختصر داروغہ مصلہ لے کر اس حاکم شہر کے پاس چلا گیا اور (بادشاہ کے الفاظ دھرا دیئے) حاکم نے 100 روپے میں مصلہ خرید لیا اور فارغ ہو کر جب اسے غور سے دیکھا تو بادشاہ نے مصلے کی بنتی میں اپنی بادشاہت کے چھن جانے اور قیدی کی زندگی بسر کرنے کی تفصیل لکھی تھی اور رہائی کے لئے مدد مانگی تھی اس حاکم وقت نے فوج تیار کی اور اچانک حملہ کر دیا حملہ اتنا شدید تھا کہ سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا اور اس نے قیدی بادشاہ کو آزاد کرا لیا اور حکومت اس کے سپرد کرکے واپس چلا آیا۔ معزول حکمران نے مدد کرنے والے حکمران سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی اور تحفے میں بیش بہا قیمتی جواہرات دے کر رخصت کر دیا اور بغاوت کرنیوالے سپہ سالار اور اس کے تمام حمایتیوں کو قتل کروا دیا تاکہ ایسی سازش پھر نہ پھیل سکے۔
یہ کہانی میرے والد محترم نے (اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے’ آمین) مجھے اس وقت سنائی تھی جب میں آٹھویں یا نویں جماعت کا طالب علم تھا اور مجھے چارپائی بننے کے طریقے بتا رہے تھے اور کہا تھا کہ ہر شخص کو ہنر سیکھنا چاہئے خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوںنہ ہو ۔ آگے آنے والی زندگی میں مجھے اس چار پائی بنانے کے سیکھے ہوئے طریقے نے بہت فائدہ دیا اور میرے مشکل وقت میں میرا یہ ہنر میرے بہت کام آیا جس طرح نیک سیرت بادشاہ کا اچھے وقتوں میں مصلے بنانا سیکھنا اس کے برے وقت میں کام آیا اور وہ دوبارہ قیدی سے بادشاہ بن گیا۔
کہانی سنانے کا مقصد ایک پیغام جو میرے والد محترم نے مجھے بچپن میں دیا تھا۔ میں اپنے کالم سے اپنے قارئین تک پہنچا رہا ہوں کہ اچھے وقت میںہنر کو سیکھ لینا کسی برے وقت میں کام آتا ہے اور آنے والا دور ہنرمند لوگوں کا ہے صرف خالی تعلیم بھی کسی کام کی نہیں جب تک آپ کے پاس کوئی ہنر نہ ہو بھلے انجینئر بنو’ ڈاکٹر بنو’ وکیل بنو یا جوتے مرمت کرنے کا کام سیکھو آپ کے پاس تعلیم کے ساتھ ہنر کا ہونا ضروری ہے یہ نصیحت میرے والدنے کی تھی اور میںنے پلے باندھ لی تھی۔
(29 جولائی2013ئ)