صرف 21 گرام

12 سال ago rehan 0

انسان کی جبلت میںیہ بات شامل ہے کہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر’ بلند تر اور عقلِ کُل سمجھتا ہے اور اس دوڑ میں وہ بعض اوقات اس حد سے بہت آگے نکل جاتا ہے جو اس کے بس میں نہیں ہوتا ماضی کی طرف نظر دورائیں تو روز اول سے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کی لڑائی شداد’ نمرود’ فرعون سے لے کر کربنی اسرائیل اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ۖ کے دنیا میں تشریف لانے سے قبل قبیلوں اور مختلف گروہوں کا نسل در نسل جنگ و جدل میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور اپنی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائزکام بھی کر گزرنا ان تمام خرافات کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر آپۖ کا اس دنیا میںتشریف لانا’ مخالفین کا آپۖ کو حق اور سچ مان کر بھی آپۖ کی مخالفت کرنا صرف اور صرف اس لئے کہ اگر آپ کو سچ مان لیں گے تو ہماری خودساختہ عزت’توقیر اور معاشرے میں مقام کم نہ ہو جائے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی بعد کے ادوار میں ہلاکو خاں’ چنگیز خاں’ بربرقبائل کی خون آشام داستانیں تاریخ کے اوراق میں بھری پڑی ہیں جہاںصرف حکمرانی کے نشے میں بادشاہ وقت مخالفین کو قتل کرکے ان کی کھوپڑیوں کے مینار بنایا کرتے تھے’ جو بچوں کو قتل کر دیا کرتے تھے’ جو عورتوں پر مظالم کی انتہا کرتے تھے ‘صرف اقتدار کی خاطر بھائی بھائی کو قتل کرواتے ان کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر کر اندھا کر دیتے’ راجہ داہر جیسے اقتدارکی خاطر بہن سے شادی کر لیتے اور بعد کے ترقی یافتہ دور میں دنیا میںپہلا ایٹم بم ہیرو شیما اور ناگاساکی پر برسا کر لاکھوں انسانوں کو پلک جھپکتے میں نیست و نابود کر دیتے مقصد صرف اقتدار اور اپنے آپ کو دوسروں سے برتر ثابت کرنا تھا۔ ہٹلر کا اقتدار کی خاطر لاکھوں لوگوں کو ختم کر دینا’ عراق میں امریکہ کا اپنی چوہدراہٹ بنانے کے نام پر ڈیزی کٹر بم سے لے کر کیمیائی ہتھیاروں کا کھلے عام استعمال کرنا اور افغانستان میں خودساختہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے نام پر مسلمان نسلوں کو تباہ کیا جانا تاحال جاری ہے۔ پاکستان کو پتھروں کے دور میں لے جانے کی دھمکی دے کر اپنے مفادات حاصل کرنا’ قوموں’ ملکوں اور نسلوں کا آپس میںلڑنا اس کے پیچھے صرف اور صرف ایک ہی مقصد کارفرما رہا اور وہ تھا اپنے آپ کو دوسروں سے افضل اور بلند تر خیال کرنا۔
اس سارے فلسفے کی حقیقت صرف اور صرف اکیس گرام ہے تازہ گلاب کی چار سے چھ پتیوں کا وزن اکیس گرام بنتا ہے۔ مٹر کے چھ سے دس دانے اکیس گرام کے ہوتے ہیں۔ چار سے چھ ٹشو پیپرز کا اکیس گرام وزن بن جاتاہے۔ مٹی کی چھوٹی سے کنکر اکیس گرام’ ہوا میں اڑتے ہوئے چند مچھر اکیس گرام کے ہوتے ہیں۔ شہد کی مکھی کا وزن اکیس گرام’ پانی کی چند بوندیں اکیس گرام کی ہوتی ہیں چھوٹی سی مکڑی اکیس گرام’ تین سے پانچ کامن پن اکیس گرام بن جاتی ہیں۔ کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا اکیس گرام اور ہوا کے چند بلبلے اکیس گرام وزن رکھتے ہیں۔کاش ہم اکیس گرام کو درست کر لیں۔
آج کی جدیدسائنس اور تحقیق کرنے والے اداروں نے انسانی روح کو اکیس گرام وزن دیا ہے اور انسانی زندگی کا سارا دارومدار صرف اکیس گرام پر ہی منحصر ہے اگر سائنسدان اور تحقیق کرنے والے جدید ترین اداروں کی اس تحقیق کو سچ مان لیا جائے تو غور کریں ہم صرف اکیس گرام کیلئے کیا کچھ کرتے ہیں اگر اکیس گرام پر قابو پا لیں تو یہ جنگ و جدل ختم ہو سکتی ہے انسان کی زندگی سے اکیس گرام نکال دیںتو وہ میت’ لاش اور فوت شدہ بن جاتا ہے جبکہ اکیس گرام کے ساتھ کبھی وہ ارسطو’ سقراط بقراط سے لے کر ہلاکوخاں’ چنگیز خاں اور فرعون کہلاتا ہے۔
کاش ہم انسانی جسم کے 80 سے 100 کلو وزن کی بجائے صرف اکیس گرام کو درست سمت دے لیں اور نبی آخرالزماں حضرت محمدۖ کے لائے ہوئے اس پیغام پر عمل کر لیں جو آپۖ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر دیا تھاتو پھر یہ بے ثباتی دنیا کی اہمیت ختم ہو جائے گی اور اس ازلی اور ابدی زندگی جس میں صرف اور صرف روح کو اہمیت ہے اور صرف اکیس گرام کی اہمیت ہے یہ گوشت پوست کا ڈھیر تو مٹی میں مل جائے گا اور اس خوبصورت جسم کو کیڑے کھا جائیں گے آج اگر ہم صرف اکیس گرام یعنی روح کے معاملے کو درست کر لیں (سانس کا آنا اور جانا یہی روح ہے یہی زندگی ہے اور یہی اکیس گرام ہیں) ان کو درست کرنے اور بہتر گزارنے کے لئے حادی برحق حضرت محمدۖ کی عملی زندگی کو اپنانا ہوگا ورنہ ابدی زندگی میں صرف اکیس گرام کا حساب دینا بھی ناممکن ہو جائے گاجبکہ 100 کلوگرام کا حساب کیسے ممکن ہوگا۔ خدارا صرف اور صرف اکیس گرام درست کر لیں۔
صرف اور صرف 21 گرام درست ہونے سے دنیا اور آخرت میں کامیابی اور 21 گرام کی خرابی دین و دنیا کی بربادی۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
(17 جولائی 2013ئ)