جیل فیلوز

12 سال ago yasir 0

یہ کیسا اتفاق ہے کہ لوگ چلے جانے والوں کو یاد کرتے ہیں جبکہ وہ موجود ہوں تو اس کے خلاف ہر بات ہر عمل کو جائز قرار دیا جاتا ہے اور انسان کا عمل ہی اس کو اچھا یا برا ظاہر کرتا ہے کچھ لوگ آزمائش آجائے تو اس سے سبق سیکھ لیتے ہیں کچھ لوگ اپنے پیش رو کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں’ کچھ لوگ دانا لوگوں کی باتوں پر عمل کرکے اپنا راستہ درست کر لیتے ہیں۔
سنا ہے کسی ملک کا حکمران بڑا ظالم تھا اور اس کے ظلم سے نہ دوست نہ دشمن بچا تھا بلکہ ہر آنے والا دن وہ عوام کو تنگ کرنے ستانے اور ظلم ڈھانے کے لئے نئے طریقے تلاش کرتا رہتا کبھی ٹیکس لگا کر ‘ کبھی بے گناہوں کو قتل کروا کر’ کبھی غریبوں سے روزی روٹی چھین کر الغرض اس کی رعایا اس سے بہت تنگ تھی اور اس کے خلاف بددعائیں کرتی تھی کہ الٰہی اس کو ختم کر دے اور کوئی نیا حکمران عطا کر دے اللہ نے ان کی دعائیں سن لیں وہ حکمران مر گیا اس کا بیٹا بادشاہ بن گیا ابتدا میں لوگوں نے شکرانے کے نوافل پڑھے اور مٹھائیاں بانٹی کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ یہ تو اپنے باپ سے بھی بڑا ظالم ہے وہ تو صرف زندہ لوگوں پر ہی ظلم کیا کرتا تھا جبکہ یہ تو مرنے والے کی بھی توہین کرتا ہے۔ اس نے ایک عجیب فرمان جاری کیا کہ ہر مرنے والے کو اس وقت تک دفن نہ کیا جائے جب تک اس کے لواحقین سرکاری خزانے میں ایک سو روپیہ جمع نہ کروا دیں ورنہ اس کے وارثان میںسے کسی ایک کو سو کوڑے مارے جائہیں گے یہ حکم سن کر عوام بے حد پریشان ہو گئی اور یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ پہلا بادشاہ اس سے اچھاتھا۔
اس کو حسن اتفاق کہیے یا اپنے پیش رو کی تقلید کہ میاں صاحب وہی کام جو سابقہ حکمران کرتے رہے آگے بڑھا رہے ہیں اس دور میں بھی مہنگائی تھی آج اس میں اور اضافہ ہو گیا اس دور میں بھی گیس بجلی پٹرول کی قیمتیں بڑھتی تھیں آج اور اضافہ ہو رہا ہے اس دور میں بھی لاء اینڈ آرڈر نہ تھا آج اس سے بھی بدتر اور ایک پاگل شخص پاکستان کے دارالحکومت کو پانچ گھنٹے یرغمال بنا لیتا ہے اس دور میں بھی ڈرون حملے جاری تھے آج بھی جاری ہیں’ اس وقت بھی کرپشن اور مافیا طاقتور تھا آج بھی ویسا ہی ہے اس دور میں بھی ان پڑھ اور جعلی ڈگری والے موجود تھے آج بھی ہیں اس وقت بھی اپنوں کو نوازنے کے لئے مخصوص اشیاء کا کوٹا (ایفی ڈرین) وغیرہ پسندیدہ لوگوں کو دیا جاتا تھا اور ڈیوٹی کم یا ختم کر دی جاتی تھی آج بھی بیٹری سے چلنے والی گاڑی ہائی بریڈ پر مخصوص لوگوں کو نوازنے کے لئے ڈیوٹی ختم کر دی جاتی ہے ۔ سرکار اس وقت بھی کسی اور کے ہاتھ میں تھی حکومت آج بھی کوئی اور طاقت کررہی ہے سیاسی کرتب اور شعبدہ بازیاں اس وقت بھی جاری تھیں آج بھی جاری ہیں گرینڈ الائنس اس وقت بھی بنتے تھے آج بھی وقت کی ضرورت ہیں’ کراچی اس وقت بھی جل رہا تھا آج بھی جل رہا ہے’ بلوچستان کل بھی مرکز سے ناراض تھا آج بھی ناراض ہے’ انصاف کے لئے کل بھی عوام اور خاص پریشان تھے آج بھی ہیں’ گیس بجلی چور کل بھی طاقتور تھے اور آج بھی طاقتور ہیں۔
فیصل آباد سابقہ دور میں بھی ہائی کورٹ بنچ کے لئے کوشاں تھا آج بھی ہے’ انڈیا بہادرپہلے بھی ہماری سرحدوں کی مخالفت کرتا تھا آئے روز ہم پر دراندازی کا الزام لگاتا تھا اور ہمارے فوجیوں پر گولیاں چلاتا تھا آج بھی کر رہا ہے بلکہ اس میں شدت سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہ ہمیں کل بھی دہشت گردوں کا حمایتی کہتا تھا آج بھی کہہ رہا ہے اور ہم کل بھی صرف وضاحتیں کرتے تھے آج بھی ویسے ہی ہے الغرض جس ادارے کو دیکھ لیں جس سمت رخ کر لیں آپ محسوس کریں گے کہ صرف چہرے بدلے ہیں باقی تمام کام ویسے ہی ہو رہے ہیں اور تو اور ایک اور مزے دار حقیقت بھی یاد آ گئی کہ سابق حکمرانوں نے اپنے جیل فیلوز کو نوازا اہم عہدوں پر لگایا اپنے جلاوطنی کے زمانے میں خدمت کرنے والوں کو باعزت مقام دیا اور پانچ سال تک بلاشرکت غیرے ان کی ہر بات حکم کا درجہ رکھتی تھی۔
آج پھر ملک کے صدر کا انتخاب کرنے اور پنجاب کے گورنر بنانے سے لے کر نچلی سطح پر معیار وہی ہے کہ کس نے جیل یا جلاوطنی میں ہمارا ساتھ دیا اور کتنا سا تھ دیا؟ کیا اعلیٰ ترین عہدوں کو پرُ کرنے کا یہی معیار ہے؟ کیا پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو پنجاب کا گورنر بننے کا اہل ہو؟ کیا ہم ماضی سے سبق نہیں سیکھیں گے؟ کیا ہم سیانوں کی باتوں پر عمل نہیں کریں گے؟ کیا ہم غلطیوں سے اصلاح نہیں لیں گے؟ اور کیا ہم آج بھی صرف اپنے پسندیدہ لوگوں کو ہی آگے لائیں گے۔
ہم جس امریکہ بہادر کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اس کا معیار یہ ہے کہ اوبامہ حکومت اپنے مخالف کی بیوی ہیلری کو وزیر خارجہ مقرر کر دیتا ہے سابق امریکی صدارت کے امیدوار کو اپنی ٹیم کا حصہ بنا لیتا ہے مقصد صرف ملک و قوم کی
سا لمیت اور گڈ گورننس ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں جیت کر سب سے پہلا اور اہم ترین کام مخالف امیدوار کے خلاف فوجداری مقدمات بنانا اسے ہر طرح سے ذلیل کرنا اور سچ لکھنے اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمے درج کروانا شامل ہیں اگر یہ سب ایسے ہی ہے تو پھر وہ پرانا ظالم حکمران نئے آنے والے سے بہتر تھا کیونکہ جیل فیلوز اور جلاوطنی کے زمانے میں لندن میں خدمت کرنا بھی کوئی بات ہوتی ہے جس کاپھل ملنا ضروری ہے۔
(19 اگست2013ئ)