بغداد اور پاکستان
12 سال ago yasir 0
سلطان علائو الدین محمد خوارزمی کے دور میں اسلامی معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہو چکا تھا منافقت کا دور دورا تھا۔ امراء عیاشی رنگینی اور طائوس و رباب کی محفلوں کو ہی حکمرانی سمجھ بیٹھے تھے اندرونی مسائل کی طرف توجہ نہ تھی بڑے بڑے علمائ’ فقہاء اور جید عالم دین غیر ضروری مناظروں اور بحث میں الجھے ہوئے تھے مثال کے طور پر ”کوا حرام ہے یا حلال” اس کائنات میں پہلے ”مرغی آئی یا انڈا” ہر طرف فرقہ پرستی اور افراتفری کا راج تھا حسن بن صباہ نامی امراء خاص نے خراسان کے قریب ایک قلعہ میں جنت بنا رکھی تھی جہاں وہ حسین عورتوں اور غلامان کے جھرمٹ میں رہتا۔
محلاتی سازشوں’ فرقوں میں بٹ جانے اور مسلم رعایا کا دھڑے بندیوں میں تقسیم ہو جانے سے بیرونی حملہ آوروں کو موقع مل گیا اور امراء بادشاہ وقت کی خوشامد کرکے اس کو گمراہ کررہے تھے ۔ دوسری طرف چنگیز خاں ایک وحشی صفت بہادر اور جنگجو حکمران تھا چنگیز خان کے بعد تولی خان پھر منگو خاں اور پھر ہلاکو خان نے بغداد کو تباہ و برباد کیا۔ چنگیز خان سے ہلاکو خان تک کے دور میں بغداد کے حکمران اس خطرے کو کبھی بھی اہمیت نہ دیتے تھے بلکہ دولت اور طاقت کے نشے میں مست دین اور دنیا دونوں کو بھلا بیٹھے تھے جب ہلاکو خان نے مسلمانوں کو اس اندرونی کمزوری اور تفرقہ بازی کو دیکھا تو بغداد پر حملہ کر دیا اس وقت بغداد کی کل آبادی 20 لاکھ تھی جس میں 16 لاکھ افراد کو تیہ تیغ کر دیا۔
تاریخ انسانی آج تک ایسی بربریت’ وحشت اور درندگی سے لرزاں ہے خوبصورت عورتوں کی عزتیں لٹتی رہیں’ بچوں کو بے دریغ نیزوں بھالوں اور تلواروں سے کاٹ ڈالا گیا نوجوانوں کو اذیت ناک سزائیں دی گئیں۔ محلوں’ مدرسوں اور شاہی املاک کو آگ لگا دی گئی بغداد آگ میں جلتا رہا لٹتا رہا’ کھوپڑیوں کے مینار بنتے رہے خون کی ندیاں بہتی رہیں اور سلطان علائو الدین خوارزم کے خانوادے کے تمام افراد کو بوروں میں بند کرکے ڈنڈوں سے مار مار کر ختم کیا گیا۔ فصلوں کو آگ لگا دی۔
الغرض وہ بغداد جس کو تاریخ دان عروس البلاد یعنی شہروں کی دلہن کہا کرتے تھے آج ہلاکو خان کے حملے کے بعد کھنڈرات کا سماں پیش کرنے لگا اور سب کچھ مسلمانوں کی اندرونی مخالفت’ فرقہ بندی’ عیاشی’ شراب و کباب’ معاشرتی و اخلاقی کمزوریوں کے سبب پیش آیا۔
اگر آج ہم غور کریں تو بغداد کے حالات اور وطن عزیز کی خستہ حالی میں کتنی مماثلث پائی جاتی ہے؟ کیا آج ہم اخلاقی پستی کا شکار نہیں؟ کیا آج تفرقہ بازی عروج پر نہیں؟ کیا شیعہ سنی بریلوی وہابی کا مسئلہ درپیش نہیں؟ کیا آج ہم شہید یا جاں بحق کے مسئلے پر دست و گریباں نہیں؟ کیا آج محلاتی سازشوں کا فائدہ ہمارے دشمن نہیں اٹھا رہے؟ کیا آج ہمارے ہمسایہ ممالک ہمیں نقصان نہیں پہنچا رہے؟ کیا آج ہماری اندرونی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ہم پر ڈورن حملے نہیں ہو رہے؟ خودکش بمباری نہیں ہو رہی؟ لسانی وجہ سے قتل نہیں ہو رہے؟ کیا ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کمزور نہیں ہیں؟ وہ قومیں کبھی شکست نہیں کھاتیں جو ماضی سے سبق سیکھ لیتی ہیں آج ہمیں اپنے اصل دشمن کو پہنچاننا ہوگا’ آج ہمیں غیر ضروری مناظروں اور بحثوں سے بچنا ہوگا۔
آج ہمیںفرقہ بندی اور کوے کے حلال یا حرام ہونے کی بحث میں نہیں جانا شہید یا جاں بحق کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں دے کر ملکی مفاد میں متحد ہونا ہوگا ڈرون حملوں کے خلاف ڈٹ جانا ہوگا اندرونی مخالفتوں کو بھولنا ہوگا ورنہ مجھے اس دور کے ہلاکو خان اور آج کے ڈرون حملے میں کچھ فرق نہیں لگتا آج ہم نہ مل کر نماز پڑھ سکتے ہیں اور نہ جہاد کر سکتے ہیں اور اور مذہبی فریضوں کی ادائیگی بھی بندوقوں کے سائے میں ادا کرتے ہیں آج اگر ہم اپنے ہی ملک اپنے ہی علاقے اور اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ ہیں تو پھر بیرونی حملوں سے کیونکر بچ سکتے ہیں؟ تاریخ کے اوراق میں زندہ رہنا ہے تو زندہ قوم بن کر رہا جائے ناکہ مردہ قوم’آنے والے دور کا مورخ جب پاکستان کی تاریخ لکھے تو پاکستانی قوم کو بہادر محب وطن ‘ نڈر لیڈر’ دین اور ملک پر مر مٹنے والا لکھے ناکہ غدار’ مفاد پرست کمزور اور ملک و قوم کو لوٹنے والا تاریخ میں ”ہیرو بن کر زندہ رہنا یا زیرو بن کر” فیصلہ آپ کا آپ کے ہاتھ میں ہے۔
(25 نومبر 2013ئ)

