قاری’ کتاب اور کاتب

12 سال ago yasir 0

روزازل سے پڑھنے ‘ پڑھانے اور کتاب کا ذکر جاری ہے اور رہے گا کامیاب وہی ہوا جو اس کے ساتھ جڑا رہا اور جس نے اس تکون سے دوری اختیار کی وہ خواہ فرد ہو’ معاشرہ ہو’ قوم ہو یا کوئی اور ملک دنیا میں ذلیل و خوار اور برباد ہو گیااور جس نے اس سے رشتہ جوڑا وہ کامیاب ہو گیا تاریخ انسانی ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جس میں قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں رقم ہیں ہم بحیثیت مسلمان اگر اپنی تاریخ کو دیکھ لیں تو ہمیں تمام کامیابیوں کا راز اسی میں مل جائے گا۔
دین حق کا آغاز ہی آپۖ پر پہلی وہی اقراباسم ربک الذی خلق جس کا ترجمہ ”پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا” اور کہا گیا کہ ”اے محبوب اگر میں آپۖ کو خلق نہ کرتا تو پوری کائنات کو خلق نہ کرتا” یعنی آپۖ ہی وجہ وجوہ کائنات ہیں یعنی پہلا سبق ملا تو پڑھائی کا ملا۔ کفر اور اسلام کی پہلی جنگ’ میدان بدر میں ہوئی مسلمانوں کو فتح اور کفار کو شکست ہوئی۔ جنگی قیدیوں کو آپۖ نے اس شرط پر چھوڑنے کا اعلان فرمایا کہ پڑھے لکھے قیدی مسلمانوں کے بچوں کو پڑھائیں لکھائیں جب وہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہو جائیں تو ان کو قید سے آزاد کر دیا جائے اس میں کتنا بڑا سبق ہے کتنی اس کی اہمیت ہے کہ اس دور جہالت میں آپ نے علم کی شمع کو روشن کرنے کا درس دیا پڑھنے اورپڑھانے کے عمل کو جاری کیا پھر فرمایا ”علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے” پھر فرمایا ”علم حاصل کروگود سے گور تک” یعنی ماں کی گود سے لے کر قبر میں جانے تک لیکن ہم ظالم لوگ ہیں جو اپنی جانوں پر ظلم کرنے پر اترے ہوئے ہیں۔ قاری’ کتاب اور کاتب اپنی راہ سے ہٹ چکے ہیں قاری نے پڑھنا چھوڑ دیا کاتب نے لکھنا اور کتاب کا وجود خطرے میںپڑ گیا۔
معزز و محترم قارئین! آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم پڑھنے اور پڑھانے سے عاری ہو چکے ہیں دیگر غیر ضروری سرگرمیوں اور غیرملکی میڈیا وار کاشکار ہو کر اپنے کلچر’ مذہب’ روایات اور اکابرین کی باتوں کو بھول چکے ہیں۔ آج ہماری لائبریریاں ویران ہو چکی ہیں آج ہمارے نوجوان موبائل زدہ معاشرے میں گمراہ ہو چکے ہیں آج بھانڈ اور ناچ گانے والے صاحب عزت سمجھے جانے لگے ہیں۔ آج کا لکھاری اور کاتب قلم کی طاقت کھو چکا ہے۔ آج معاشرے میں کتاب کی ویلیو ختم ہو چکی ہے اگر میں آج کے ترقی یافتہ ممالک کا اپنے ملک سے موازنہ کروں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ آج امریکہ برطانیہ’ جاپان روس چین اور دوسرے ممالک میں اسلامی تاریخ کو بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے۔
آج خلفائے راشدین کے دور اور بالخصوص حضرت عمر کا نظام عدل’ انتظام وانصرام’ فتوحات اور قانون کی علمبرداری سے سبق حاصل کرکے دنیا میں بلند مرتبہ حاصل کر چکے ہیں۔ آج غیر مسلم قرآن مجید سے علم حاصل کرکے ہر دنیاوی مسئلے کا حل نکال رہے ہیں آج صد افسوس کہنا پڑ رہا ہے ہماری میراث کو غیر مذاہب لے گئے۔
آج میرے قاری یعنی پڑھنے والے کے پاس وقت نہیں آج کتاب کی اہمیت ختم ہو گئی آج لکھنے والوں کا زاویہ بدل گیا۔ آج نفسا نفسی کے عالم میں ہم اپنا راستہ کھوٹا کر چکے ہیں اے کاش آج وہ لکھنے والے لوٹ آئیں جن کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو جو وہ لکھیں تو پڑھنے والے کے دل میں اتر جائے آج چند سکوں کے عوض اپنی بیش بہا دولت یعنی تحریر کو برباد نہ کریں آج ہم کتاب کی اہمیت اجاگر کریں اور اس کتاب میں وہ کچھ تحریر کریں جو انسانیت کی بقا اوربہتری کیلئے بہتر ہو آج مجھے قاری’ کتاب اور کاتب کی دوری کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں بہروں کو آوازیں دے رہا ہوں میں اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتا ہوں اور لولے لنگڑے کو دوڑ میں پہلے نمبر پر لانا چاہتا ہوں مجھے اس بات کا بھی مکمل یقین ہے کہ بہرے سن نہیں سکتے اندھے دیکھ نہیں سکتے اور اپاہج دوڑ نہیں سکتے لیکن روشنی کی ایک کرن مجھے راستہ دکھا رہی ہے کہ ہمیشہ ناکامیوں سے کامیابیاں جنم لیتی ہیں پانی کی ایک بوند پتھر پر مسلسل گر کر سوراخ بنا سکتی ہے۔ بے دین اور دیار غیر اگر قاری’ کتاب اور کاتب کے تعلق کو بہترین بنا سکتے ہیں اور کامیاب ہو سکتے ہیں تو اس دعا کے ساتھ کہ اے لوح و قلم کے مالک اس گم گشتہ پاکستانی پاکستانی قوم کو ترقی اور کامیابی کے اس راستے پر چلا دے۔ قاری’ کتاب اور کاتب کی اس تکون کو ایک بار پھر اوج ثریاپر پہنچا دے (آمین) اس دعا کے ساتھ
آندھی میں لا کے رکھ دیا روشن چراغ کو
اپنے خدا پہ مجھ کو بھروسہ بہت ہے یار
(10 فروری 2014ئ)