کل آج اور کل
12 سال ago yasir 0
ہر بار کسی دکھ پریشانی مسئلے یا کٹھن حالات کا ذکر کرتے ہوئے کبھی جی چاہتا ہے کہ کاش پھر وہی وقت لوٹ آئے اور آنکھیں بند کرکے جب میری سوچ کا پنچھی گزرے وقت میں محو پرواز ہوتا ہے تو چشم تصور میں دیکھتا ہوں کہ گھر میں دادی اماں یا اماں جان گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر رات کو سونے سے پہلے اپنے بچوں کو لے کر بیٹھ جاتی تھیں انہیں لوریاں سنایا کرتی تھیں۔ بادشاہ اور جن پری کی باتیں سناتی تھیں اور اس پیار سے بچوں کے سروں میں ہاتھ پھیرتی تھیںاور وہ معصوم تمام دکھوں سے بے پروا ہو کر سو جاتے اور انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ غم کیا ہے آج وہ مائیں نہیں وہ بچے نہیں اور وہ باتیں نہیں ہیں یا کبھی ساون کے مہینے میں گھٹائیں آتی تھیں کالے بادل آتے تھے تو بچے معصومیت سے کہتے تھے کہ بادل پانی پینے جا رہے ہیں یا پھر قوس قزا کو دیکھ کر کہنا کہ مائی بڈھی کات رہی ہے یا پھر بچوں کا بادلوں کو دیکھ کر کہنا کہ کالے بادل آئیں گے تو آکر مینہ برسائیں گے اور یقین کریں بارش بھی ہو جاتی تھی اور خوب چھم چھم کر ہوتی تھی جب چھوٹی چھوٹی معصوم شرارتیں کرنے پر گھر والوں سے سزا ملتی تھی جب گائوں کی بوڑھی اماں کے اوپر پانی گرا دینا اور اس کا ناراض ہونا جب گائوں میں بیری اور شہتوت کے درختوں سے بیر اتارنا اور کپڑوں کا پھٹ جانا اور ابے سے پھینٹی پڑنا۔ کہاں گئے وہ دن جب صبح سے شام تک چین ہی چین سکون ہی سکون ہوتا تھا بج سکول کے ماسٹر صاحب مسجد کے مولوی صاحب اور حکیم صاحب کو تنگ کرنے پر سزا بھی ملی پر اس میں بھی بے حد مزا آتا تھا۔ کاش وہ وقت پھر لوٹ آئے۔ ہر بوڑھے جوان اور بابے میں آج بھی ماضی کا وہ بچہ موجود ہے زندہ ہے پر ہم اتنے بدنصیب ہیں کہ اس بچے کو جو ہمارے اندر موجود ہیں کبھی جگانے کی کوشش ہی نہیں کی اور کبھی ہم نے اپنی خود ساختہ مصروفیت اور پریشانیوں سے نکلنے کی کوشش نہیں کی اور کبھی بھی اپنے ماضی کے اوراق کو پلٹنے اور چند لمحے خوش رہے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔
میرا کامل ایمان ہے کہ اگر آج کے اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی اپنے اندر کے بچے کو جگا لیں اور کبھی کبھی اس کے ساتھ ماضی کی شاندار جاندار اور پرلطف منزلوں کی سیر کو نکل جائیں تو زندگی میں پھر سے بہار آ جاتی ہے۔ آج کے مضمون کو لکھنے کی وجہ بھی ہی ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کو درخواست کروں کہ صرف ایک بار اس پر عمل کرکے دیکھیں تھوڑی دیر کیلئے آنکھیں بند کر لیں اور ماضی میں کھو کر اپنی معصوم اور بھولی بھالی شرارتوں کو یاد کریں جب آپ دوکاندار سے ٹافی لینے جاتے تھے اور ساتھ میں جھونگا بھی مانگتے تھے یا چپکے چپکے چیز اٹھانے پر دوکاندار کان سے پکڑلیتا تھا اور جب ابا شبرات پر پٹاخے نہ لا کر دیتا تھا ناراض ہو جاتے تھے میرا ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھنے کا مقصد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کسی نہ کسی طرح اپنے دل کی بات کو آپ تک پہنچا سکوں ہمیشہ (کل آج اور کل) کو یاد رکھنے والے کبھی مایوس اور دکھی نہیں ہوتے یا سادہ لفظوں میں ماضی حال اور مستقبل کی تکون کو ہمیشہ یاد رکھیں ماضی کی اچھی باتوں سے کامیابی کی طرف قدم اٹھائیں حال کو ماضی کی خامیوں سے بچائیں اور مستقبل کی بنیاد حال کے اچھے اعمال سے کریں جب بھی کبھی آج کے مشکل ماحول میں پریشان ہوں تو ماضی میں اپنے بچپن کو یاد کرکے اس سے جی بہلائیں آپ پھر تازہ دم ہو جائیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔ جس طرح تین دوست اکٹھے سفر کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ چلتے چلتے راستے میںپہاڑی علاقہ شروع ہو گیا موسم خراب ہو گیا رات کا وقت ہو گیا اور وہ تینوں بارش سے بچنے کیلئے ادھر ادھر دیکھنے لگے انہیں قریب ہی ایک غار نظر آ گئی وہ فوراً اس میں گھس گئے اب اللہ کی حکمت کہ بارش اور پھسلن کی وجہ سے ایک پتھر سرکا اور غار کے منہ پر آ گیا جس سے باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا تینوں دوست بے حد پریشان ہو گئے ۔
پھر ایک نے کہا کہ ماضی میں کئے گئے اچھے کاموں کو یاد کرکے اللہ سے مدد مانگیں تو رستہ بن جائے گا جب انہوں نے اپنے ماضی میں کئے گئے وہ خاص عمل جن سے اللہ اور اس کی مخلوص کو فائدہ ہوا تھا یاد کرکے اللہ سے مدد مانگی تو پتھر سرکا اور غار کا منہ کھل گیا اور وہ آزاد ہو گئے آج کے موضوع میں کوئی دکھ کی بات نہیں ہوگی صرف ایک ہی درخواست کہ ماضی کی خوبصورت یادوں کو یاد رکھو حال کو ان خوبصورت یادوں کے سہارے بہتر بنائو اور مستقبل کے اچھا ہو نے کی امید رکھو۔ خواب زندگی کی علامت ہیں اور خواب صرف زندہ لوگوں کو آتے ہیں مرنے والوں کو نہیں اس لئے خوابوں کو دیکھنا اور ان کی پورا کرنے کی جستجو کا نام زندگی ہے۔ بقول شاعر
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
(3 مارچ 2014ئ)

