مصلحت زدہ حکمران
12 سال ago yasir 0
عہد رسالت میں پیش آنے والے واقعات میںایک یہ بھی مشہور واقع ہے کہ مکہ میں بسنے والے ایک بااثر قبیلے کی عورت چوری کے الزام میں آپۖ کی خدمت میں پیش کی گئی جس پر چوری کا جرم ثابت بھی ہو گیا تو آپۖ نے اس جرم پر اس عورت فاطمہ کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اہل مکہ کے امراء اور معززین کا ایک گروہ آپۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس عورت کے عالی حسب نسب کی بناء پر سفارش کی اور سزا معاف کرنے کی درخواست کی تو محبوب حق حضرت محمدۖ نے کیا شان سے فرمایا کہ ”خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کے الزام میں میرے سامنے آتیں اور ان پر جرم ثابت ہو جاتا تو میں محمدۖ اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا”
یہ ہے ہمارا دین اور یہ ہے اس کی حقیقت آج ذرا غور کریں اور اپنے قول و فعل کو دیکھیں تو شرم آتی ہے کہ ہم اسی نبیۖ کے امتی ہیں جنہوں نے انصاف کے ترازو میں سب کو برابر رکھا ہمارے ملک کی یہ بدنصیبی ہے کہ جب سیاستدان حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو دودھ اور شہد کی ندیاں بہانے کے دعوے کرتے ہیں۔ انصاف کا بول بالا اور غریب کی زندگی کو آرام دہ بنانے کی باتیں کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آکر ”بندر بانٹ اور اندھا بانٹے شیرینی وہ بھی اپنوں کو”
ہمارا دین’ ہمارا قرآن’ ہمارا مذہب ہمارے حادی برحق جب یہ کہتے ہیں کہ انصاف کے ترازو میں سب ا یک ہیں تو پھر۔ غداری کے مقدمے میں نامزد ملزم پرویز مشرف کو رعایت کیوں دی گئی ہے؟ پاکستانی عوام کا کروڑوں روپیہ اب تک برباد ہو چکا ہے اور موصوف ملٹری ہسپتال میں دل کا بہانہ بنا کر آرام فرما رہے ہیں۔ اگر 1973ء کے آئین کو ہی مان لیا جائے تو اس میں صدر پاکستان کو خصوصی رعایت حاصل ہے کہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوں گے اب تو پرویز مشرف صدر ہیں نہ آصف زرداری جن پر 600 کروڑ روپے اور سوئس اکائونٹ کا چارج ہے کیوں احتساب کیلئے قانون حرکت میں نہیں آتا؟ کبھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نام پر’ کبھی ایم کیو ایم کو سیاسی بساط میں اہمیت کو دیکھ کر کبھی تحریک انصاف عمران خان کے گھر جا کر حکومت’ کبھی پرویز مشرف کو ملٹری ہسپتال میں پناہ دے کر اور کبھی آصف زرداری سے مصلحت پسندی یا کمزوری سے کام لیا جا رہا ہے حکمران سب اچھا کی گردان کرتے نہیں تھکتے لیکن سب اچھا نہیں ہے آج بھی تھر’ چولستان’ کراچی اورملک کے دیگر علاقوں میں بھوک’ افلاس’ تشدد’ قتل و غارت گری اور وڈیروں کے غلام ابن غلام پیدا ہو رہے ہیں۔
اسلام کے ابتدائی دور میں سفارش کرنے والے معززین کو بچانے والے اور ان کے ہر گناہ کو اپنے سر لینے والے لوگوں کی کمی نہ تھی لیکن اسلام کے سنہری اصولوں نے ظاہری نمود و نمائش رکھنے والے چوہدریوں و قبیلے کے سرداروں اور اس دور کی سپر پاورز ایران’ شام اور روم جیسی حکومتوں کو بھی جھکنے پر مجبور کر دیا۔ آج مختلف ٹی وی چینلز پر ”شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار” ان کی شان میں قصیدے کہتے ہیں جن پر ملک کا قانون توڑنے کا الزام ہے جن پر کرپشن کے چارجز ہیں۔
خدارا قانون توڑنے والوں’ کرپشن کرنے والوں’ غریبوں یتیموں اور کمزوروں پر ظلم کرنے والوں کو سزا ملنے دو اگر وہ سچے ہیں تو انہیں مقدموں کا سامنا کرنے دو۔ شاہ سے محبت کرنے والوں کی یہ محبت انہیں ملزم سے مجرم بنا دے گی۔
سندھ حکومت تھر میں بھوک اور افلاس سے مرنے والوں کی بجائے اسمبلی میں آم اور اچار کی خرید و فروخت میں مصروف ہے پنجاب حکومت چولستان میں قحط سالی کی بجائے رائے ونڈ فارم میں بلی کا مور کو مارنے پر شوکاز نوٹس جاری کررہے ہیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتیں اپنے اپنے ایجنڈے پر کام کررہی ہیں مرکزی حکومت طالبان سے کمیٹی کمیٹی بنانے کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔ دھماکے بھی جاری ہیں اور مذاکرات بھی۔ قانون کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے اور تحفظ بھی دیا جاتا ہے ملک سے باہر بیٹھ کر اداروں کو لڑانے کی باتیں بھی ہوتی ہیں اور حکومت میںحصہ لینے پر بھی اسرار ہے پھر اس ساری واردات کو حکومت کی مصلحت کہوں یا کمزوری۔
(31 مارچ 2014ئ)

