عجیب قوم کے کرشمے
12 سال ago yasir 0
ہم ایک عجیب قوم ہیں ہمارا ہر قدم دنیا کو حیران کر دیتا ہے اور جہاں پاکستانی کا نام آتا ہے ترقی یافتہ اقوام سے لے کر بھوک اور افلاس میں گھری ہوئی قوم بھی سمجھ لیتی ہے کہ کچھ نہ کچھ عجیب ہونے والا ہے اگر ایمانداری سے جائزہ لیں تو کسی نہ کسی حد تک یہ بے چارے حق بجانب بھی ہیں اگر ہم کرنے پر آئیں تو ایٹم بم خیموں میں بیٹھ کر تیار کر لیتے ہیں۔ مخالف کو شکست دینے کے لئے جنگ میں جسم پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ جاتے ہیں۔ بنانے پر آئیں تو انگریزوں اور ہندوئوں کو ہر میدان میں شکست دے کر پاکستان بنا لیتے ہیں۔ پوری دنیا میں کہیں بھی کسی بھی مسلمان ملک یا قوم کی تکلیف اپنے جگر میں محسوس کرتے ہیں اور اس محبت میں ان دیکھے دشمن کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیتے ہیں کیونکہ ہم عجیب قوم ہیں معاف کرنے پر آئیں تو غداروں کو معاف کر دیتے ہیں ملک کے دو ٹکڑے کرنے والوں کو اعزازات دے دیتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل کو معاف کر دیتے ہیں ہم ایسی قوم ہیں کہ بحرانوں کا انتظار کرتے ہیں اور یہاں تک سنا گیا ہے کہ اس دفعہ مارشل لاء نہیں لگا’ سیلاب بھی نہیں آئے ہم ایک سیاسی پارٹی کو گندا کہہ کر اقتدار سے دور کرتے ہیں اور دوسری مرتبہ بھاری اکثریت سے اسے ہی حکومت پر بٹھا دیتے ہیں۔ اگر ہم پکڑنا چاہیں تو امریکہ کو مطلوب انتہائی اہم شخصیات مثلاً ایمل کانسی’ یوسف رمزی’ شیخ خالد’ عافیہ صدیقی اور ملاں ضعیف کے علاوہ قریباً 700 سے زیادہ افراد کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر دیتے ہیں اور اگر نہ پکڑنا چاہیں تو اپنے ہی ملک میں صرف 35 لاپتہ افراد کو بازیاب نہ کرا سکیں حالانکہ ملک کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ بھی ان افراد کی بازیابی کیلئے کوشاں ہے۔
ملک کا نام روشن کرنا چاہیں تو انتہائی کم عمری میں عرفہ کریم جیسی بیٹی کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب لا سکتی ہے اور اگر ملک کو بدنام کرنے پر آئیں تو مختاراں مائی جیسے کردار جن کو مسلمان مخالف قوتیں استعمال کرکے ملک دین اور مسلمان کو بدنام کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانتے دیتے کیونکہ ہم ہر میدان میں حیران کر دینے والی قوم ہیں۔
ہم کرکٹ میں ہارا ہوا میچ جیت بھی سکتے ہیں اور جیت کو اپنی ہار میں تبدیل کرنا بھی ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا جس کی تازہ ترین مثال ویسٹ انڈیز اور پاکستانی شاہینوں کا میچ ہے اور پوری دنیا میں کہیں ایسا نظام تعلیم نہیں جیسا ہمارے ملک میں رائج ہے ملک کے دور دراز علاقوں میں تختی’ قاعدہ اور ٹاٹ سکول سسٹم رائج ہے’ شہروں میں اردو اور انگلش میڈیم سکول’ سرکاری سکولوں میں گورنمنٹ سے منظور شدہ کتابیں اور پرائیویٹ سکولوں کالجوں میں آکسفورڈ کا سلیبس پڑھایا جاتا ہے اور مزے کی بات سب کی سرپرستی سرکاری سطح پر کی جاتی ہے ترقی یافتہ ممالک میں استاد کا احترام اس حد تک کیا جاتا ہے کہ عدالت میں جج بھی اس کو عزت دیتا ہے اور ہمارے ہاں استاد کو طالب علم تھپڑ مار سکتا ہے ایک پولیس کا سپاہی مرغا بنا سکتا ہے اور ہم اس نظام تعلیم پر فخر بھی کرتے ہیں اور دوسرے ممالک سے ترقی کی دوڑ میں شامل بھی ہیں ہم اسی لئے عجیب قوم ہیں۔ ہم چاہیں تو امریکہ بہادر کی لاکھ دھمکیوں کے باوجود لالچ اور مفاد کو ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کر دیں اورہم چاہیں تو صرف ایک فون کال پر بھیگی بلی بن جائیں اور امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔
ہم چاہیں تو گیارہ ماہ کے قلیل عرصہ میں میٹرو منصوبہ کامیابی سے چلا لیں اور اگر نہ چاہیں تو چالیس سال سے کالا باغ ڈیم نہ بنائیں ہم چاہیں تو قانون کے احترام میں وزیراعظم عدالت میں پیش ہو جائیں اور نہ چاہیں تو قانون کی ہر کتاب کو جھوٹا ثابت کر دیں چاہیں تو فوجی افسر کو باوردی صدر بنا دیں اور اس کی محبت میں قصیدے کہیں اور نہ چاہیں تو اُسی صدر پرجوتے برسا دیں۔ چاہیں تو کالے کوٹ کی عزت کریں اورچاہیں تو منہ پر کالی سیاہی لگا دیں۔ ہماری قوم میں یہ تضاد کیوں ہے؟
میری ناقص رائے میں ہم دو انتہائی سطحوں کے رہنے والے ہیں اور درمیانے راستے کو بھول چکے ہیں ایک متوازن قوم’ متوازن فرد اور متوازن معاشرے کیلئے درمیانے رستے کی بے حد ضرورت ہوتی ہے ہم یا تو احساس برتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ کائنات میں عقل کُل ہم ہی ہیں اور یا پھر احساس کمتری کا جہاں ہم مایوسی اور ناامیدی کی آخری حد کو چھو لیتے ہیں کیونکہ ہم عجیب قوم ہیں اور ہم فیصلے بھی عجیب کرتے ہیں۔
(07 اپریل 2014ئ)

