بابا اور طوائف
12 سال ago yasir 0
پرانے وقتوں میںایک طوائف اپنی خوبصورتی اور ادائوں کی وجہ سے بہت مشہور تھی۔ کیا غریب’ کیا امیر’ کیا بادشاہ’ کیا وزیر سب اس کی زلف کے اسیر نظر آتے تھے۔ اس کی خوبصورتی کے چرچے دور دراز تک سنے اور سنائے جاتے تھے۔ وہ ہر روز شام کو بن سنور کر اپنے کوٹھے پر بیٹھ جاتی لوگ آتے اس کو منہ مانگی قیمت دے کر دادِ عیش لیتے اور چلے جاتے۔ ایک رات عجیب واقعہ ہوا کہ ایک اللہ والا اپنے پرانے کپڑے پہنے گلے میں مالا ڈالے اس کے دروازے کے سامنے آکر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کے جاہ و جلال اور روحانی طاقت کو دیکھ کر جو بھی آتا واپس چلا جاتا۔ جب آدھی رات ہو گئی اور کوئی بھی گاہک طوائف کی چھت پر نہ آیا تو اس نے اپنی خادمہ سے کہا کہ دیکھو کیا معاملا ہے کوئی گاہک نہیں آیا؟ وہ خادمہ نیچے گئی دیکھتی ہے کہ ایک اللہ کا بندہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے سیڑھیوں پر بیٹھا ہے اس خادمہ نے بابے کو جھڑکا اور کہا کہ نکل جائو یہاں سے ہماری روزی روٹی کے وقت پر تم ہمارا کام خراب کررہے ہو۔ بابے نے کہا کہ اپنی مالکن سے کہو آج کی رات میں اس کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں جتنے پیسے وہ دوسروں سے لیتی ہے میں دینے کو تیار ہوں۔ خادمہ اوپر گئی اور قصہ بیان کر دیا طوائف نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں مجھے تو پیسے چاہئے۔ الغرض وہ بزرگ طوائف کی سیڑھیاں چڑھ گئے اور اسے مطلوبہ رقم دے کر اس کا وقت خرید لیا اور پابند کر لیا کہ چونکہ تو نے مجھ سے پوری رات کے پیسے لئے ہیں اب جیسے میں کہوں ویسے کرنا ہے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ اس بزرگ نے کہا کہ جائو سب سے پہلے پاک صاف ہو کر وضو کرکے آئو ساری رات پڑی ہے آج دین اور دنیا دونوں کے مزے لیں گے۔ طوائف گئی وضو کیا سادہ مگر صاف لباس زیب تن کیا اور آ گئی۔ اللہ والے نے کہا کہ آئو میرے ساتھ دو نفل پڑھو۔ بزرگ آگے کھڑے ہو گئے اور وہ طوائف پیچھے۔ جب دونوں سجدے میں گئے تو اس بزرگ کی چیخیں نکل گئیں اور اللہ سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگنے لگے کہ اے اللہ میرا کام یہاں تک تھا کہ میں نے اس معاشرے کی بدکردار عورت کو تیرے آگے سجدے میں گرا دیا وہ بھی آپ کے دیئے ہوئے علم اور حکم کے ذریعے اب اس کے دل میں نیکی کا چراغ جلانا اور اس کو نیک بنانا تیرا کام ہے وہ سجدہ اتنا لمبا ہوا کہ اللہ نے دعا قبول کر لی۔اور اس طوائف کو اللہ کی قربت نصیب ہو گئی اور دنیا میں پاکیزہ اور بلند مقام پا گئی۔ صرف ایک اللہ والے کے سجدے نے کایا پلٹ دی۔
یہ کہانی سنانے کا ایک خاص مقصد تھا کہ ہم اس جہان میں بہت تھوڑے وقت کے لئے آئے ہیں اور ہمیں ہرحال میں واپس جانا ہے اس دنیا میں کچھ ایسا کام کر جائیں جو آنے والوں کے لئے مشعل راہ بن جائے جیسا کہ اس اللہ والے نے اللہ ہی کی دی ہوئی دانائی اور حکمت سے ایک طوائف کو پاکیزہ زندگی دے دی۔ اس لئے اگر دنیا اور آخرت میں عزت پانا چاہتے ہو تو دوسروں کے لئے آسانیاں پیداکرنا سیکھو۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل جو کسی دوسرے کیلئے آسانی پیدا کر سکتا ہو کر گزریں۔ بادشاہ ہیں تو رعایا کیلئے’ امیر ہیں تو غریب کیلئے’ آنکھوں والے ہیں تو اندھے کیلئے’ ڈاکٹر ہیں تو مریض کیلئے’ وکیل ہیں تو سائل کیلئے’ آزاد ہو تو قیدی کیلئے’ تعلیم یافتہ ہو تو ان پڑھ کیلئے’ جج کی سیٹ پر بیٹھے ہیں تو انصاف کریں’ صحافی ہیں تو قلم سے جہاد کریں۔الغرض اگرہر فرد دوسرے کے لئے آسانی پیدا کرنے والا بن جائے تو انسانیت کی معراج کو پہنچ جاتا ہے ۔
ایک اور واقعہ یاد آ گیا کہ ایک امیر کبیر آدمی جس کے پاس بے حساب دولت تھی اور کاروباری ہونے کے ناطے اس نے ایک شاندار ہوٹل بنایا اور اپنے کسٹمرز کیلئے ہر طرح کی ضرورت کا خیال رکھا ۔ ایک طرح سے اس نے دوسروں کیلئے آسانیاں پیداکیں لیکن اپنا فائدہ بھی سامنے رکھا۔ اس کے بالکل برعکس سردیوں کی رات’ شدید ٹھنڈا موسم اور قلفی جما دینے والی رات میں ایک اپاہج سڑک کے کنارے سردی سے ٹھٹر رہا ہوتا ہے۔ قریب تھا کہ سردی سے مر جائے ایسے میں ایک راہ گیر گزرتا ہے اور ٹھنڈ سے بچنے کیلئے اس نے گرم چادر اوڑھ رکھی ہے وہ اپاہج راہ گیر کو دیکھ کر مدد مانگتا ہے اور وہ راہ گیر اس کی سردی کو اپنے جسم میں اترتے محسوس کرتا ہے اور اپنی اکلوتی چادر اس کو دے کر چلاجاتا ہے یہ ہے اس کا دوسروں کیلئے آسانی پیدا کرنا۔ نہر میں ڈوبتے کو بچانا’ زخمی اور بیمار کی تیمارداری کرنا’ ساس کا بہو کو بیٹی کا پیار دینا’مہمان کا کسی کے گھر جاتے ہوئے راستے سے کھانے کیلئے کوئی چیز لے جانا’ کسی کی ضرورت کو اپنے سے زیادہ اہمیت دینا یہ سب چھوٹی چھوٹی آسانیاں ہیں اور کچھ نہیں دے سکتے تو دو میٹھے بول اور ایک مسکراہٹ ہی کسی دوسرے کو دے دو تو یہ بھی آسانی کرنے کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ بقول شاعر
کرومہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہربان ہوگا عرشِ بریں پر
صرف اور صرف ایک مرتبہ اس رستے پر چل کر دیکھیں اور دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کریں تو آپ کی اپنی زندگی میں ان دیکھے راستوں سے آسانیاں آئیں گی جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکیں گے۔ کبھی یہ مت سوچو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے اگر دشمن بھی اچھی بات کرے تو سنو لیکن میں تو آپ سے پیارکرنے والا ہوں۔ اس کی گہرائی میں جا کر تو دیکھو زندگی خوشیوں سے بھر جائے گی۔
(21 اپریل 2014ئ)

