کشتی اور ملاح

12 سال ago yasir 0

دریا کے کنارے چھوٹے سے مگر پرسکون گائوں کے دو دوستوں کی کہانی ہے جو ہر کام میں ایک دوسرے کی ضد تھے ایک امیر خاندان کا چشم و چراغ جس کا نام بائو نادر تھا اور دوسرا غریب کسان کا بیٹا جس کا نام پھیکا تھا۔ ایک ہوشیار چالاک اور علم سے محبت کرنے والا اور دوسرا سیدھا سادہ معصوم اور علم سے دور بھاگنے والا۔ ایک سکول میں ہر سال اول انعام حاصل کرتا اور دوسرا گائوں کے سارے نالائق لڑکوں کا نمبردار تھا۔ ایک کو روزی روٹی اور ضروریات کی کبھی کمی محسوس نہ ہوتی تھی جبکہ دوسرا کام کاج میں لگا رہتا لیکن ان کی دوستی بڑی لازوال تھی اور پورے گائوں میں لوگ انہیں نادر پھیکا کہہ کر پکارتے تھے۔ دن یونہی مزے سے گزر رہے تھے کہ ایک دن امیر خاندان کے چشم و چراغ نادر کو گھروالوں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے ملک سے باہر بھیج دیا جبکہ دوسرا حالات کا مقابلہ کرنے اور روزی روٹی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ کئی سال گزر گئے نادر اعلیٰ ڈگری لے کر اپنے گائوں آ رہا تھا اور سارا گائوں اس کے استقبال میں مشغول تھا جبکہ دوسرا دوست پھیکا پاپی پیٹ کی خاطر دریا کنارے بطور ملاح کشتی چلا کر روزی روٹی کماتا تھا۔
شہر اور گائوں کے درمیان دریا تھا جس کو عبور کرکے گائوں میں داخل ہوا جا سکتا تھا اور اس گائوں کی کشتی واحد ٹرانسپورٹ تھی جو مسافروں کو لانے اور لے جانے کے کام آتی تھی خدا خدا کرکے وہ وقت بھی آ گیا کہ پھیکے کا جگری یار ولایت سے تعلیم کی اعلیٰ ڈگری لے کر گائوں واپس آ رہا تھا اس کو بھی بے حد خوشی تھی اس نے اپنے یار کے لئے کشتی کو پھول اور جھنڈیوں سے سجا کر دریا کے پار انتظار کرنے لگا۔ یار آ گیا جوش سے ملے اور کشتی میں بیٹھ کر دریا عبور کرنا شروع کیا تو نادر نے کہا کہ تم نے تعلیم حاصل نہ کرکے اپنی آدھی زندگی برباد کر لی تیرا اور میرا مقام اب زمین آسمان کا فرق ہے تو کل بھی مشکل میں تھا آج بھی مشکل میں ہے اور کل بھی مشکل میں رہے گا نادر نے پرانے دوست کو خوب جلی کٹی سنائیں اور کہا کہ اگر تو تعلیم حاصل کرتا تو تمہیں پتہ چلتا کہ ادب کیا ہے؟ سائنس کیا ہے؟ اور دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے؟ اور تو نے اپنی آدھی زندگی برباد کر لی۔
خدا کی قدرت کشتی نے اچانک ایک جھٹکا لیا اور ایک طرف سے دریا میں ڈوبنے لگی نادر بے حد پریشان ہو گیا تو پھیکے نے پوچھا کہ تم نے اتنے علوم سیکھے ہیں تیرنا بھی آتا ہے کہ نہیں اس نے کہا کہ نہیں یہ تو مجھے نہیں آتا تو اس نے کہا کہ پھر تو نے آج ساری زندگی برباد کر لی کشتی ڈوب جاتی ہے اور پھیکا اپنے دوست کو بچا کر دریا سے باہرلے آتا ہے۔ یہ کہانی میں نے آپ کو اس لئے سنائی ہے کہ علم حاصل کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن علم کے ساتھ اگر ہنر بھی سیکھا جائے تو کمال ہے ورنہ اس ادھورے علم کا کیا فائدہ جو آپ کی مشکل وقت میں جان بھی نہ بچا سکے۔ ہمارا نظام تعلیم بچوں کو ”رٹو طوطے” بنا رہا ہے۔ دینی مدارس’ گورنمنٹ کے ادارے اور پرائیویٹ کالج تعلیم کے نام پر ڈگریاں تو بانٹ رہے ہیں جبکہ اس علم کی اصل روح وہ ہنر ہے جو ڈگریوں سے نہیں پریکٹیکل سے آتا ہے ناپید ہے آج ہمارا معاشرہ انگریزی تعلیم کو ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی خیال کرتا ہے اس پڑھے لکھے دوست نادر نے پھیکے سے کہا تھا کہ اگر تو نے علم حاصل نہیں کیا تو تم نے آدھی زندگی برباد کر لی ہے لیکن میں اس کو یوں لکھوں گا کہ اگر آپ نے تعلیم حاصل کی ہے تو آدھی کامیابی حاصل کی ہے اور اگر ساتھ ہنر بھی سیکھا ہے تو کامیابی سو فیصد ہے اب آدھی کامیابی یا مکمل کامیابی حاصل کرنی ہے فیصلہ آپ کا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
(28 اپریل 2014ئ)