میں’ ملک اور مستقبل

11 سال ago yasir 0

جب سے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے ساتھ خیالات کو اکٹھا کرکے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے مقصد صرف اور صرف ایک ہی رہا ہے کہ پڑھنے والے کو ایک واضح پیغام دیا جائے۔ کہاں تک کامیاب ہوا ہوں؟ یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں اور یہ بھی بتا دوں کہ بغیر عطا کئے نہ کچھ لکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی کامیابی ملتی ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے اپنے بندے پر کرم ہوتا ہے تو بات بنتی ہے۔ یقین کریں میں کئی کئی دن کوشش کے باوجود ایک لفظ بھی نہیں لکھ پاتا اور پھر اچانک سے ایک خیال ذہن میں آتا ہے اور اس کی مکمل تصویر بن جاتی ہے۔ یہ خیال کبھی رات کو تین بجے آرام دہ بستر پر آجاتا ہے اور کبھی دن میں ڈرائیو کرتے ہوئے یا کسی محفل میں بیٹھے ہوئے یا معاشرے میں گردونواح میں کوئی ایساواقعہ پیش آ جاتاہے تو ایک موضوع مل جاتا ہے۔
آج کا موضع بھی رات کو اچانک آنکھ کھل جانے سے آ گیا کہ ”میں” کا لفظ بڑا خطرناک ہے اور یہی انسانیت کا دشمن ہے بلکہ کائنات میں جس میں بھی ”میں” آ گئی وہ تباہ ہو گیا۔ میرے آج کے موضوع میں صرف ”میں” کو درست کرنے سے باقی کام خود بخود درست ہو جائیں گے۔ قرآن کریم میں کہا گیا ہے لفظوں کی کمی کوتاہی اللہ معاف فرمائے۔ ”اگر انسان کو کوئی کامیابی ملتی ہے تو کہتا ہے میں نے کی ہے اور اگر کوئی دکھ تکلیف یا آزمائش آتی ہے تو کہتا ہے اللہ کی طرف سے ہے” حالانکہ اللہ پاک اپنے بندوں سے 70 مائوں سے بھی بڑھ کر پیار کرتا ہے اور واضح ہے کہ جب بھی کوئی آزمائش آتی ہے تو انسان کے اپنے اعمال وجہ ہوتے ہیں اور کامیابی ملتی ہے اللہ کی طرف سے انعام ہوتا ہے آج کہا جاتا ہے کہ میں ملک سے غربت ختم کر دوں گا۔ مہنگائی ختم کردوں گا’ بے روزگاری کا خاتمہ کر دوں گا اور ملک میں خوشحالی ترقی اور امن کا بول بالا کر دوں گا’ میں ملک کو دنیا میں اعلیٰ مقام دلائوں گا وغیرہ وغیرہ اور یہ نعرے آج سے نہیں جب سے پاکستان بنا ہے ہر سیاستدان’ حکمران’ ارباب اختیار’ سیاسی راہنما’ دینی جماعتیں اور دیگر معاشرے میں رہنے والے لوگ کہتے رہے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ کیسے؟ اب کیسے مشکل ترین کام کیا ہے؟ خود کو بدلنا اپنے دوہرے معیار کو ختم کرنا’ قول اور فعل میں تضاد کو ختم کرنا’ امیر اور غریب کی دوری کو ختم کرنا’ اپنی ”میں” کو مارنا اور اللہ کی توفیق کو شامل حال کرنا۔ بندہ اس دنیا سے مر جاتا ہے پر ”میں” پھر بھی قائم رہتی ہے۔ آپ قبرستانوں میں جائیں وہاں بھی ”میں” کے نظارے نظر آئیں گے۔ قطبوں پر چوہدری’ رانا’ سیٹھ’ عزت مآب اور پتہ نہیں کیا کیا پڑھنے کو ملے جبکہ دین کہتاہے کہ اپنی قبروں کو زمین کے برابر رکھو۔ ہمیں حضرت علامہ مولانا’ ہادی زماں’ فلاں فلاں نہیں بننا’ ہمیں تو مٹنا ہے اور مٹنے والی چیز کبھی مکمل نہیں ہوتی اور جب مکمل نہیں ہوتی تو اس پر اترانا کیسا؟ اگر ہم ”میں” کو بدلنا چاہتے ہیں تو پھر انتہائی آسان فارمولا بنائیں اور اس میں اللہ کی توفیق شامل کرکے کسی بات کو مکمل کرنے کا ارادہ کریں جیسے ”اللہ کی توفیق سے میں یہ کام کروں گا” اس میں اور اس میں ”میں یہ کام کروں گا” زمین آسمان کا فرق ہے؟ ہم چونکہ بڑے عقل مند لوگ ہیں یہ آسان فارمولا استعمال بھی کر لیں گے لیکن سنئے جناب قول اور فعل میں تضاد نہیں ہوگا جو آپ زبان سے کہو گے اس کا عملی نمونہ آپ کی اپنی ذات ہوگی کسی شخص نے اپنے وقت کے بہت بڑے بزرگ سے پوچھا یا حضرت اسم اعظم کیا ہے؟ تو جواب دینے والے نے کیا خوب جواب دیا کہ اپنے شکم کو حرام کے لقمے سے بچا لے پھر تو جو بھی کہے گا وہ ”اسم اعظم” ہوگا۔ہم اس آزمائش پر کتنا پورا اترتے ہیں؟ اور پھر کہتے ہیں دعائیں قبول نہیں ہوتی۔ بابا جی سے تعویز بھی کروایا۔ منتیں بھی پوری کیں چڑھاوے بھی چڑھائے پر بات نہیں بنی۔ بابا بات کیسے بنے گی جب اندر خالی ہے جب تک ”میں” زندہ ہے کامیابی نہیں ملتی۔ فنا ہونا اصل کامیابی ہے۔ دین کہتا ہے کنوئیں میں گر جائے تو 100 ڈول پانی نکال دینے سے کنویں کا پانی پاک ہو جاتا ہے ہم 100 ڈول پانی تو نکال دیتے ہیں کنویں کو صاف کرنے کے لئے لیکن کتے کو باہر نہیں نکالتے اور کہتے ہیں کہ پانی صاف ہو گیا۔ پاکی کیلئے اس ”میں” کو نکالنا ہوگا۔ یہ ملک اللہ کی عطاء سے حاصل ہوا اس میں کائنات کے تمام خزانے دنیا سے زیادہ ہیں۔ معدنیات’ قدرتی وسائل’ سونا’ تانبا کوئلہ کے ذخائر’ ریکوڈیک’ چنیوٹ میں نکلنے والے حالیہ سونے اور تانبے کے ذخائر’ ریگستان’ چولستان’ سرسبز و شاداب وادیاں’ شہر’ گائوں’ پانی’ دریا’ سمندر’ نوجوان’ علم’ ہنر الغرض ہم وہ قوم ہیں جس کو اللہ پاک نے ہر نعمت سے نوازا ہے لیکن ہم نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو ٹھکرا دیا ہے جس طرح حضرت موسیٰ کی قوم پر ”من سلوا”اترتا تھا اسی طرح ذرا غور تو کریں پاکستان کا مقام دنیا میں کیا ہے؟ تمام دنیا کی سپرپاورز قومیں اس خطے پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں اس کے قدرتی وسائل پر کنٹرول کرنا چاہتی ہیں اور براعظم ایشیاء کے اس سپر ایٹمی پاور اسلامی ملک کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہم وہ قوم ہیں کہ ہمارے گھر میں سونا چاندی کے ذخائر موجود ہیں اور ہم اپنے دشمنوں سے کہتے ہیں کہ ہم اسے نکال نہیں سکتے۔ آپ ٹھیکہ لے لو ہمیں تھوڑا سا حصہ دے دو اور آپ اپنی مرضی سے جتنا لے جانا چاہو لے جائو اور پھرکہتے ہیں کہ ”ہم زندہ قوم ہیں” جو ملک 27 رمضان المبارک کو بنا ہو جس کو بنانے والوں نے کہا ہو کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ ”لاالہ الا اللہ”اور جن 20 لاکھ انسانوں نے اس کی بنیادوں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے آپ کو یہ ملک لے کر دیا ہو آج وہ عالم ارواح میں ہم سے سوال کرتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟ ملک کو بچانا ہے تو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ شاندار ملک کے شاندار مستقبل کیلئے انتہائی شاندار قوم بن کر ابھرنا ہوگا اور صرف اٹھارہ کروڑ عوام کو ہجوم سے قوم بننے میں بہت زیادہ وقت درکار نہیں صرف اور صرف ”میں” کو درست کر لیں۔ یہ نظام درست ہو جائے گا۔ یہ ملک ترقی کرے گااور ہمارا مستقبل روشن تابناک اور آنے والی نسلوں کے لئے درخشندہ باب کھل جائے گا۔ ”میں’ ملک اور مستقبل” کی تکون میں صرف اور صرف ”میں” ہی مس فٹ ہے اسے درست کریں”۔
(2 مارچ 2015ئ)