نوگوایریاز
11 سال ago yasir 0
یہ بات اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ کبوتر اور بلی کا اگر آمنا سامنا ہو جائے تو کبوتر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ وہ مکمل محفوظ ہو چکا ہے اور خطرے سے بچ گیا ہے لیکن پھر اچانک بلی اس پر حملہ کر دیتی ہے اور وہ جان سے چلا جاتا ہے۔ اس کہانی میں سچائی ہے کہاں تک ہے پتہ نہیں لیکن اس وقت میرے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اس کہانی کی اصلی اور سچی تصویر بن چکے ہیں۔ آج کا پاکستانی ڈر کی آخری حد تک جا پہنچا ہے اور جیب میں پیسے اس لئے نہیں رکھتا کہ ضرورت کے وقت کام آئیں بلکہ اس لئے رکھتا ہے کہ اگر ڈاکو گن پوائنٹ پر تلاشی لیں تو میری جیب میں رقم نہ نکلنے پر کہیں جان سے نہ مار دیں یعنی ڈاکوئوں کو خوش کرنے کے لئے پیسے جیب میں رکھے جاتے ہیں۔ گرجوں’ مدرسوں’ امام بارگاہوں اور مسجدوں میں پہرے دار صرف اس لئے رکھے جاتے ہیں کہ عبادات کو سکون سے مکمل کیاجائے لیکن اچانک خودکش حملہ ہو جاتا ہے اور ہم عبادات کیلئے بھی گھر میں نمازیں شروع کر دیتے ہیں۔ آج سرے بازار دن دیہاڑے لوگوں کو مارا جارہا ہے نہ مارنے والے کو پتہ ہے کہ کیوں مار رہا ہے اور نہ مرنے والے کو خبر ہے کہ مجھے کیوں قتل کیا گیا ہے اور ہم آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور کبوتر کی طرح اپنی زندگی محفوظ تصور کرتے ہیں۔ لاہور میں گرجا گھر پر خودکش حملہ اور اس کے ردعمل میں لوگوں کو تشدد اور زندہ جلا دینا حکومت اور ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے لیکن ہم نے آنکھیں بند کر لی ہیں اس واقعہ سے قبل کتنے واقعات تسلسل سے ہوئے ہیں۔ آرمی پبلک سکول’ مہران بیس’ پشاور میں لاتعداد دہشت گردوں کے حملے’ کراچی کے حالات’ لاہور ایئرپورٹ کا واقعہ’ ہم کب تک آنکھیں بند کرکے اپنی زندگی کو محفوظ کریں گے۔ ہم کب تک نوگوایریاز بنا کر محلوں’ گلیوں’ بازاروں اور گھروں کے سامنے آہنی گیٹ لگا کر عوام کی زندگی کو اجیرن اور مسائل سے دوچار کرکے خود کو محفوظ بنانے کی ناکام کوشش کرتے رہیں گے۔ آج کل یہ فرسٹریشن اس حد تک بڑھ چکی ہے اور نوگو ایریاز بنانے کا جنون اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ مسافر اور راہ گیر حتیٰ کہ مریضوں اور ایمبولینس کی نقل و حرکت بھی ناممکن ہو چکی ہے اور جس مقصد کیلئے یہ آہنی گیٹ لگا کر راستوں کو بند کیا جاتا ہے کہ چور ڈاکوسے ہم محفوظ ہو چکے ہیں وہ پھر بھی تسلسل اور لگاتار رپورٹ ہورہے ہیںاور ہم نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ کیا راستوں کو بند کر دینا’ بڑی بڑی دیواریں بنا کر قلعہ نما محلوں میں بند ہو کر زندگی محفوظ تصور کرنا درست ہے؟ آئیے آپ کو حضرت فاروق اعظم کے دور میں لے کر چلتا ہوں۔ کیا آپ کے دور میں کوئی نوگوایریاز تھے؟ کیا آپ کے زیر سایہ علاقوں میں رہنے والے مسلم اور غیرمسلم خود کو محفوظ کرنے کے لئے اس طرح کے خوف میں مبتلا تھے۔ اور کیا جو قومیں اس وقت مسلمانوں کے مقابلے میں قلعہ بند کرکے دیواروں کے پیچھے چھپ کر کامیاب ہو گئیں کیا قیصر و قصراء کے محل اور نوگوایریاز ان کو بچا سکے؟ اس سنہری دور میں اور آج کے دور میں اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ اس وقت انصاف تھا اور ظالم کو معلوم تھا کہ ظلم کرنے پر سزا سے بچنا ناممکن ہے۔ جب انصاف سرے عام ہوگا جب ظالم کو سزا اور مظلوم کو داد رسی ملے گی تو پھر ہمیں مسجدوں’ امام بارگاہوں’ گرجا گھروں کی حفاظت کیلئے پہرے دار نہیں رکھنے پڑیں گے۔ گلیوں’ بازاروں اور راستوں کو بند کرنا نہیں پڑے گا۔ آج ہمیں اس نوگوایریاز کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔ یہ دیواریں حفاظتی تدابیر ہمیں غیرمحفوظ ہونے کا یقین دلاتی ہیں اور ہم اندر سے خوف کی آخری حدوں کو پار کر چکے ہیں۔ ہم اپنی حفاظت کے لئے گن مین رکھتے ہیں اور دوسرے کو اسلحہ پکڑا کر ہم خود کو محفوظ خیال کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک وی آئی پی کلچر کا خاتمہ نہ ہوگا۔ جب تک امیر اور غریب کے فرق کو ختم نہیں کیا جائے گا اور انصاف پر عمل نہ ہوگا۔ یقین کریں اگر انصاف ہونا شروع ہو جائے تو پھر خوف کے سائے خودبخود ختم ہو جائیں گے پھر ہر کوئی سکون سے جیئے گا۔
کراچی کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا لوگ پرسکون زندگی گزارتے تھے پھر اچانک اَن دیکھے خوف نے اس شہر کو نوگوایریا ز میں تبدیل کر دیا اور آج پاکستان کے ہر صوبے’ ہر شہر اور ہر محلے میں اس اَن دیکھے خوف نے نوگوایریاز بنا دیئے ہیں۔ ہر کوئی راستوں کو بند کرکے چار دیواری بنا کر’ گن مین رکھ کر’ قلعہ نما گھروں میں قید ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اَن دیکھے خوف کی وجہ سے لوگ اجتماع میں جانے سے بچتے ہیں۔ پبلک مقامات’ تفریح گاہیں’ پرہجوم بازاروں میں گھومنے والے ان دیکھے خوف سے پریشان ہیں۔ جس کا واحد حل انفرادی اور اجتماعی سوچ کو تبدیل کرنا ہے کہ خوف سے بچنا ہے تو خوف کا سامنا کرنا ہے نہ کہ چھپ کر آنکھیں بند کرکے اور گلیوں بازاروں میں گیٹ لگا کر بند کرنے سے خوف دور ہوگا۔ حکومتی سطح پر اس نوگوایریاز کی حوصلہ شکنی اور قانون سازی ہونی چاہئے۔ بطور ایک عام شہری میری ڈی سی او فیصل آباد سے درخواست ہے کہ گلیوں’ بازاروں کو آہنی گیٹ لگا کر بند کئے جانے والے تمام راستے فوراً کھولے جائیں۔
فیصل آباد کا مکمل سروے کروایا جائے اور تمام نوگوایریاز کو واگزار کروا کر عوام الناس کیلئے کھولا جائے کیونکہ چند گھر مل کر پوری کالونی یا پورے علاقے کا راستہ بند کرکے نہ تو کوئی قومی خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور نہ ہی کوئی عوام الناس کے لئے بہترین کا سامان مہیا کررہے ہیں۔
(19 مارچ 2015ئ)