ریاست مدینہ ‘صلح حدیبیہ اورسیاناحکیم
7 سال ago yasir 0
کامیابی حاصل کرنے کیلئے کچھ لوگ دوسروں کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے کچھ پریکٹیکل کرتے ہیں اورکامیابی حاصل کرتے ہیں لیکن ناکام لوگ نہ کسی کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اورنہ خودکوشش کرتے ہیں اورناکام ہوجاتے ہیں موجودہ حکومت جس پرپاکستان کی 21کروڑعوام نے امیدیں وابستہ کی ہوتی ہیں اورہروہ شخص جس کوذراسی بھی سوجھ بوجھ ہے دل سے دعاکرتاہے کہ اس نئی حکومت کواللہ عوام کے مسائل اورپاکستان کودنیامیں عزت کااعلیٰ مقام دلانے کاموقع دے لیکن اس کیلئے موجودہ حکمران بلخصوص وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے تاکہ اپنے دیئے گئے ایجنڈے پر پورا پورا عمل ہوسکے۔خان صاحب جب بھی بات کرتے ہیں تو ریاست مدینہ سے شروع کرتے ہیں ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ ایسا ہو۔جہاںسب کو یکساں حقوق حاصل ہوں ۔جہاں انصاف ہو جہاں امیر اور طاقتور کسی غریب پر ظلم نہ کرسکے،جہاں اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنایا جائے ،اسلامی معاشرہ اور ریاست مدینہ جہاں آپکو حقوق کا درس دیتاہے وہاں فرائض کی ادائیگی بھی ضروری ہے ورنہ ریاست کا حسن اور خوبصورتی متاثر ہوجاتی ہے ریاست مدینہ جس اکمل ترین ہستی نے بنائی تھی یادرکھنے والی بات ہے کہ انہوں نے صلح حدیبیہ جو ایک تحریری معاہدہ تھا کیا تھا ۔جس میں حق اورسچ پر ہونے کے باوجود حقائق اور مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی شرائط کو بھی قبول کرلیا تھا جو اس وقت کے بڑے بڑے صحابہ پر بھی بجلی بن کر گری تھیں اور بعد میں وقت نے ثابت کردیا کہ ریاست مدینہ کی بنیادوں میں صلح حدیبیہ کا گارااور اینٹیں لگنے سے ریاست مدینہ مضبوط ترین اور کا میاب ترین بنی۔صلح حدیبیہ سن 6ہجری میںکفار اور مسلمانوں کے درمیان ایک تحریری معاہدہ تھا۔ جس میں نعوذ بااللہ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ والہ واسلم کو نبی ماننے سے انکارکیا آپ ۖ کو عمرہ کی ادائیگی سے روک دیا گیا جو مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ جائے گا اسے واپس کردیا جائے گااور مدینہ کی ریاست سے مکہ آئے گا اسے واپس نہیں کیا جائیگا۔ یہ تمام باتیں اور اس کے علاوہ او ر بھی بہت سی شرائط جو ظاہری طورپر مسلمانوں کیخلاف تھیں لیکن نبی رحمتۖ نے تحریری طورپر قبول کرلیں ۔وزیراعظم اس میں سبق کیاملتاہے ؟اصل چیز وہ ہے اگر ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہو تو پھر صلح حدیبیہ کی شرائط اور حالات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا سب محاذوں پر جنگ لڑنی ہے تو چند محاذوں کو کچھ دیر کیلئے بند کرنا ہوگا۔جب مسائل زیادہ ہوں، وسائل کم ہوں، دشمن زیادہ ہوں،ہمدردکم ہوں تو پھر ہٹ دھرمی سے نہیں مصلحت سے کام لیا جاتاہے ۔آپکا ایجنڈا بہت اچھاہے پر اس کو پوراکرنے کیلئے آپ جس راستے کا انتخاب کرتے ہیں اس میں مصلحت کم ضد زیادہ نظر آتی ہے۔مثال کے طورپر ڈاکٹر عاطف میاں کو بطور ایڈوائزر پر مقررکرنا ،ایک خواہ مخواہ کا پھڈا کھڑا کرلیا،جو دس دنوں سے سوشل میڈیا ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا ھاٹ ایشو بن گیا،اس مسئلے کا حل فوراً یہ تھا کہ اس کو کمیٹی سے فعل حال الگ کرلیا جاتا ۔مسئلہ ختم اسی طرح کچھ کام چھ ماہ بعد کرنیوالے ہیں وہ آج شروع کردیئے جیسے گیس اور بجلی کے بلوںمیں اضافہ اس سے عوام پہلے ہی مسائل کا شکارہے کاروبار پہلے ہی ٹھپ ہوچکاہے اور اوپر سے 46%گیس کے بلوں میں اضافہ یارن منڈی بیٹھ چکی ہے ۔کاٹج انڈسٹری اور ایکسپورٹ بری طرح مسائل کا شکارہے اس وقت عوام کو ریلیف کی ضرورت ہے اور آپ آپریشن شروع کرچکے ہیں ۔ایک واقع یاد آگیا۔ ایک گائوں میں اونٹ کے گلے میں تربوز پھنس گیا قریب تھا کہ زمین پر تڑپ تڑپ کر مرجائے ،گائوں کا ایک سیانا وہاں آگیا اس نے فوراًاونٹ کی گردن کے نیچے ایک اینٹ رکھی اور دوسری اینٹ سے جہاں تربوز پھنسا ہواتھا زور سے ضرب لگائی ،تربوزٹوٹ گیا اور اونٹ کی جان بچ گئی ۔اس طرح وہ شخص علاقے میں سیانا حکیم کے نام سے مشہور ہوگیا ۔قدرت خدا کی دیکھے کہ اس سیانے حکیم کا دوسرے گائوں جانے کا اتفاق ہوااس نے دیکھا کہ ایک بوڑھی اماں جس کے گلے میں گلہڑ نکلا ہواہے اس نے کہا کہ میں اس بوڑھی اماں کا علاج کرسکتاہوں بوڑھی اماں کے گھر والوں نے اجازت دے دی حکیم صاحب نے وہی پرانا اونٹ والا فارمولہ استعمال کیا۔ایک اینٹ ماں کی گردن کے نیچے اور دوسری اینٹ سے ضرب لگائی اور ماںکی چیخ بھی نہ نکلی اور سیدھی اوپر۔اس کے بعد گھروالوںنے حکیم سے کیا کیاکیا؟آپ سمجھدار ہیں ۔خدارا(تربوز اور گلہڑ،اونٹ اور بوڑھی اماں)کا فرق ضرور سمجھیں۔ خان صاحب آپ حکومت کے پہلے100دنوں میں جن کا آپ نے اعلان کررکھاہے وہ کام کریں جس سے آپکو باقی پانچ سال گزارنا اور اپنے ایجنڈے کو آگے لے کر چلنے میں آسانی ہومثال کے طورپر مختلف محکموں میں ون ونڈوآپریشن کا آغاز کریں۔ عدالتوں میں سالوں سے خوار ہونے والے سائلین کی مددکریں۔ کیااگرمیاں عاطف اس کمپنی کا ممبر نہ ہوگا تو کیا خدانخواستہ ملک نہ چل سکے گا۔ضداور مصلحت میں فرق ہوگااور کبھی کبھی بڑی چھلانگ لگانے کیلئے چند قدم پیچھے جانا پڑتاہے ۔آپکو اگر قانون سازی کرناہے بلدیاتی نظام سے لے کر کرپشن اور بدعنوانی کا تدارک کرناہے تو پھر آپکو حزب مخالف کو سننا ہو گا ان کو ساتھ لے کر چلناہوگا اگر ریاست مدینہ کی بنیاد رکھنی ہے تو پھر صلح حدیبیہ کا سبق پڑھنا ہوگا۔ اس وقت تو مسلمانوں کا مقابلہ کفارسے تھا لیکن آج مدینہ کی ریاست بنانے میں ساراملک آپ کے ساتھ ،ساری قوم آپ کیساتھ ہے اگر چند لوگوں کی مخالفت ہے تو وہ بھی ذاتی نوعیت کی ہے مذہب اور پاکستان کی سا لمیت کیلئے ہر فرد آپ کے ساتھ ہے بقول اقبال کے ”ذرا سانم ہو تو مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی”آپ اداروں کو مضبوط کریں ۔آپ معاشیات کو درست کریں بیرونی دنیا کیساتھ باعزت تعلقات بحال کریںا ندرونی سطح پر مسائل کا حل بھی آپ کو ملے گا۔صلح حدیبیہ کے معاہدے سے ملے گا جہاں ایک ہی فارمولہ تھا ۔حکمت اوردانائی سے ہاری ہوئی جنگ بھی جیتی جاسکتی ہے خان صاحب آپ نے ٹیم میں کچھ خودکش بمبار بھی بھرتی کئے ہوئے ہیں جن میں وزارت اطلاعات ونشریات سرفہرست تھے۔لفظوں کے چنائونے چوہان صاحب کو معافی مانگنے پر مجبور کردیا۔آج کا موضوع تین فقروںمیں مکمل ریاست مدینہ کاقیام صرف اور صرف صلح حدیبیہ کے گارے اور اینٹوں سے ہی ممکن ہے۔خدارا پاکستان اس وقت بہت بڑے بڑے مسائل کا شکارہے اس کا علاج گائوں کے سیانے حکیم کی طرز پر کرنے سے گریز کریں، ورنہ؟؟؟؟؟؟
(اضافی نوٹ)
ریاست مدینہ والا مضمون اخبار میں چھپنے سے پہلے ہی حکومت کی طرف سے چند اہم فیصلے سامنے آگئے جیسے عاطف میاں کو اقتصادی کمیٹی سے الگ کیا جانا ،گیس اور بجلی کے بلوںمیں اضافے کی خبر کو واپس لے لیا جانا۔لگتاہے حکومت کی نظر میں کامیابی کا راستہ تجربہ کرنے سے ہے لیکن بعض اوقات تجربے الٹ جاتے ہیں اور کامیابی ناکامی میں بدل جاتی ہے۔ سب سے بہتر راستہ کامیابی کا وہ ہے جو میںنے مضمون کے آغاز میں تحریر کیا تھا کہ سب سے بڑی اور آسان کامیابی وہ ہے جو کسی دوسرے تجربے سے فائدہ اٹھا کر حاصل کرلی جائے۔
10ستمبر2018ئ