کشمیر’ فرعون اور بنی اسرائیل
6 سال ago yasir 0
تاریخ انسانیت میں ایک ایسا دور بھی گزرا ہے جس میں وقت کا حاکم اپنے آپ کو نعوذ باﷲ ”رب” کہلواتا تھا۔ اپنے آگے سجدہ کرواتا تھا جسے اﷲ تعالیٰ کی لاریب کتاب قرآن میں فرعون کے نام سے جانا گیا۔ دوسری طرف ایک مظلوم قوم جس پر زندگی تنگ کردی گئی جس کو غلام بنایا گیا جس کے ہر ہر پیدا ہونے والے بیٹے کو قتل کردیا جاتا جس کی لڑکیوں کو زندہ رکھا جاتا جس کی نسل کشی کی ہر آخری حد کو بھی پار کرلیا گیا۔ اس قوم کو قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کہا گیا۔ یہ طلم و بربریت کی داستان زبان سے کہہ دینا’ قلم سے لکھ دینا کچھ نہیں جب تک آپ چشم تصور میں اس ماحول میں نہ چلے جائیں۔ پھر دانتوں کو بھی پسینا آجاتا ہے کہ کس خوف اور کرب کے عالم یں وہ مظلوم قوم زندگی گزار رہی تھی۔ پھر اﷲ واحد لاشریک کا کرم ہوا۔ ظالم اور جابر حکمران فرعون کو اﷲ تعالیٰ نے غرق کردیا اور قیامت تک نشانِ عبرت بنا دیا جو آج بھی مصر کے عجائب گھر میںپڑا ہے۔ قرآن کریم کی آیت کا ترجمہ ہے ” ہاں ہاں ہر مشکل کیساتھ آسانی ہے اور بے شک ہر مشکل کیساتھ آسانی ہے”۔
یہ ہے وہ روشنی کا مینار’ یہ ہے طاقت کا سرچشمہ’ یہ ہے ہر اُس مظلوم کیلئے اﷲ کا سچا وعدہ اور اﷲ کبھی اپنے وعدے کیخلاف نہیں کرتا۔ جب بھی مشکل گھڑی آئے اس آیت مبارکہ سے مطمئن ہو جائیں کہ اباچھا وقت آنے والا ہے آج میرا کشمیر جل رہا ہے۔ آج فرعونی سوچ رکھنے والے کافر مسلمانوں کی نسل کشی کررہے ہیں۔ آج ہماری ماؤں بہنوں کی عزتیں پامال ہورہی ہیں۔ آج کے مفاد پرست مسلمانوں نے کافر سے مسلمانوں کے قتل عام پر ”مفادات کے حصول پر چپ سادھ لی ہے۔ آج مسلمانوں کیساتھ پوری دنیا میں وہ سب کچھ ہورہا ہے۔ جو بنی اسرائیل کی قوم کیساتھ اُس وقت کے فرعون نے کیا تھا۔ تمام غیر مسلم طاقتیں اکٹھی ہوچکی ہیں اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے مشن پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ کائنات کے حقیقی مالک اﷲ رب العزت کا یہ اصول ہے کہ جب ظلم حد سے برھ جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
اوراس ظلم کو مٹانے کیلئے ہر فرعون کیلئے ہر دور میں اﷲ تعالیٰ کوئی نہ کوئی موسیٰ کو پیدا فرماتا ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ نمرود کیخلاف حضرت ابراہیم علیہ السلام’ اوجِ ثریا پر نظر آئینگے۔ کہیں امام حسین یزید کیخلاف کربلا میں اسلام اور دین کی آبیاری کرتے نظر آتے ہیں۔ اور کہیں موسیٰ علیہ السلام فرعون کیخلاف۔ آج کی تحریر اُن غیور’ بہادر اور کشمیر کے بیٹوں کے نام ہے جو مشکلات کے پہاڑ کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ میں سلام پیش کرتا ہوں اُن ماؤں کو’ میں سلام پیش کرتا ہوں اُن بہنوں’ بیٹوں اور بچوں کو جو آج دین اور ملک کی آزادی کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں اور اُن کے حوصلے بڑھانے اُن کی اس کوشش میں اُن کیساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بتانا چاہتا ہوں کہ کامیاب انشاء اﷲ تم ہی ہوگئے۔ فتح تمہاری ہی ہیجیتو گے تم ہی کیونکہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا اور ایسی جگہ سے مدد بھیجتا ہے جس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ قرآن میں ہے ہر مشکل کیساتھ آسانی ہے تو پھر اب آسانی آنے والی ہے تبھی تو مشکل آتی ہے۔ آج سے پہلے کبھی کشمیر پر ایسے بُرے حالات نہ تھے۔ میرا ایمان ہے نبی مکرم ۖ جس طرح اپنی ظاہری حیات میں انسانوں کی راہنمائی کیا کرتے تھے آج بھی یہ سب دیکھ رہے ہیں اور مسلمانوں کی کامیابی اور دین کے احیاء کیلئے قربانیاں پیش کرنیوالوں کی راہنمائی فرما رہے ہیں۔
میرا وجدان یہ چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے کہ آج ہم اس دور میں سے گزر رہے ہیں جس میں غزوہ ہند ہونا ہے اور ہم وہ خوش نصیب ہیں جو اس میں دامِ درم ِ’سخنے اپنا حصہ ڈال کر جیت حاسل کرنے والے خوش نصیب بن سکتے ہیں۔
بُرائی کو ہاتھ سے روکنا افضل ترین ہے اگر اس کی استطاعت نہیں تو زبان سے بُرا کہنا اور اگر زبان سے بھی کہنے سے قاصر ہیں تو دل میں بُرا جانیں اور یہ دین کی کمزور ترین حالت ہے۔ اب ہم کس جگہ پر ہیں اس کا فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتش نمرود میں ڈالا گیا تو جہاں سب لوگ آگ کو جلا رہے تھے ایک پرندہ پانی کی بوند اُس آگ کو بجھانے کیلئے لے آیا۔ ایک بوند سے آگ تو بجھنے والی نہ تھی پر قیامت والے دن جب حساب و کتاب ہو گا تو ایک طرف آگ جلانے والے ہوں گے اور دوسری طرف حضرت ابراہیم خلیل اﷲ کو بچانے والوں میںوہ پرندہ بھی ہوگا۔ یہ بدبخت سعودی حکمران’ متحدہ عرب امارات اور دیگر جتنے بھی اسلامی ممالک کے حکمران جو آج ذاتی مفاد کیلئے مسلمانوں کے قاتل کو اعزازات دے رہے ہیں اصل میں وہ بد نصیب ہیں جو نمرود کی جلائی جانیوالی آگ کو ہوا دے کر اور بھڑکا رہے ہیں۔
ہر کوئی اپنا اپنا کام کررہا ہے کوئی آگ بھڑکا رہا ہے اور کوئی پانی کی ایک بوند سے آگ کو ٹھنڈا کررہا ہے۔ آج مسلم امہ کو متحد اور ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ عمران خان صاحب بس کریں بہت ہوگیا۔ ترلے منتیں اور عُزر داریاں’ اب سیدھا سیدھا غزوہ ہند کے آغاز اور جہاد کا اعلان کریں اور اپنا نام اُن میں لکھوائیں جو دین کے احیاء اور مسلمانوں کی آزادی کے لئے مر مٹے’ خان صاحب آپ ہمیشہ کہتے ہیں کہ ایٹمی جنگ سے دونوں ملک نہٰں بچیں گے۔ میں کہتا ہوں اگر ہندوستان کے بت پرست ہندوؤں کو ختم کر کے اسلام کا جھنڈا لہرانے میں 22 کروڑ پاکستانی بھی شہید ہو جائیں تو سودا گھاٹے کا نہیں۔ پوری دنیا میں مسلمان پھر بھی کہیں نہ کہیں زندہ ہوں گے اور دین کا جھنڈا لہراتا رہے گا جبکہ دنیا میں ہندو صرف اور صرف ہندوستان میں ہی بستے ہیں۔ کافر اور مسلمان کی سوچ کا فرق یہ ہے کہ کافر زندہ رہنے کیلئے لڑتا ہے کہ بچ جائے اور مسلمان مرنے کیلئے لڑتا ہے کہ شہید ہو کر جنت میں چلا جائے یا غازی بن کر دین کا محافظ بنے۔
اے اہل کشمیر جب ارادے ٹوٹنے لگیں۔ جب پریشانیاں بے حد بڑھ جائیں جب مایوسی کا سایہ بڑھنے لگے تو قرآن کی اس آیت کو یاد کر لیا کرو۔ ترجمہ ”ہاں ہاں ہر مشکل کیساتھ آسانی ہے بے شک ہر مشکل کیساتھ آسانی ہے” اور ہماری آسانی آزادی سے کم اور کچھ نہیں۔ اور جب حوصلے شکست خوردہ ہوکر ٹوٹنے لگے تو 61ھ میں کربلا وہ منظر چشم تصور میں دیکھ لینا کہ خاص مقصد کیلئے جنگ لڑی جاتی ہے نہ کہ جیت اور ہار کیلئے صرف اس عظیم مقصد کوزندہ رکھنا ہوتا ہے اور آج اہل کشمیر حضرت امام حسین کی اس سنت کو پورا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
انشاء اﷲ ہم ہی جیتیں گے۔کشمیر بنے گا پاکستان۔ پاکستان زندہ باد
2 ستمبر 2019ء