یوم آزادی یا تجدید عہد

13 سال ago Muhammad Usman 0

مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے کیونکہ پاکستان میری پہچان ہے اور آج میں وطن عزیز کی 65 ویں سالگرہ کے موقع پر تمام پاکستانیوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتاہوں اور جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے تمام مسلمانوں کو سلام پیش کرتاہوں جن کی قربانیوں نے مجھے آزاد وطن دیا۔
آزادی ہر جاندار کا قدرتی حق ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ قیدی آزاد ہونے کی کوشش اور تمنا نہ کرے۔ کتنی درد ناک حقیقت ہے کہ جانور دوسرے جانور کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے شکار تو کرتے ہیں لیکن قید نہیں کرتے لیکن انسان جو کہ اشرف المخلوقات بھی ہے نہ صرف جانوروں بلکہ انسانوں کو بھی قید کرتا ہے۔ جانوروں کی طرح انسان انسان کو بھی غلام بناتا ہے۔ ماضی میں جسے ہم دور جہالت کہتے ہیں غریب انسانوں کی بطور غلام خرید فروخت ہواکرتی تھی آج دور جدید جسے ہم ترقی یافتہ دور کہتے ہیں میں بھی غریب انسان کی ایک غلام سے زیادہ حیثیت نہیں ہے۔ فرق اتنا پڑا کہ پہلے غلاموں کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی اور اب غریب انسان امیروں کو خریدنے کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں لگے نظر آتے ہیں۔ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ جی ہاںغریب آدمی کا کوئی بھی کام بغیر سفارش اور رشوت نہیں ہوتا۔ یہی وہ کلچر تھا جس میں عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اسی کلچر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا جسے ہم تحریک آزادی پاکستان کہتے ہیںجس کے نتیجہ میں 14 اگست 1947ء کو پاکستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے میں شامل ہوا جو آج دنیا میں میری پہچان ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں لیکن دل کہتا ہے مزا تو تب آئے جب پاکستان میرے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرے۔مطلب یہ کہ پاکستان نے تو مجھے بہت کچھ دیا لیکن میں آج تک بحیثیت خود پاکستان کو کچھ نہیں دے سکا۔ 14 اگست 1947ء کے دن پاکستان آزاد ہوا یہ تو ہم سب جانتے ہیں۔ ہر سال 14 اگست کا دن ہم جشن آزادی کے طور پر بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں اور منانا بھی چاہئے۔
آئیے! آج ہم تحریک آزادی پر ایک نظر ڈالیں۔ قارئین محترم یہ تحریک عظیم قربانیوں کی منہ بولتی زندہ مثال ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت جھٹلا نہیں سکتی۔ آزادی پاکستان کی تحریک جب زوروں پر تھی اس وقت ہندوئوں اور انگریزوں کے ظلم و ستم عروج پر تھے اس وقت مسلمانان ہند قربانیوں پر قربانیاں دے کر حصول وطن اور آزادی کے لئے ظلم وستم سہنے’ قید بند کی صعوبتیں برداشت کرنے’ جان و مال’ عزت و آبرو کو آزادی وطن پر نچھاور کرنے کی سنہری تاریخ رقم کرنے میں مصروف تھے ۔ تحریک آزادی پاکستان کا ہر دن اور ہر لمحہ ان غریب مسلمانوں کی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے اس میں اگر غریب مسلمانوں کے مقابلے میں وڈیروں اور جاگیرداروں کی خدمت کا موازنہ کیا جائے تویہ آٹے میں نمک کے برابر ہوں گی۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جس وقت آزادی پاکستان کا وقت قریب ہوا تو اس وقت بہت سے وڈیرے اور جاگیردارغلامی کی زنجیر پر آخری ضرب لگانے کیلئے غریب مسلمانوں کے ساتھ نہ تھے بلکہ جائیدادوں’ زمینوں اور فیکٹریوں کے کاغذات کی جعلی اور اصلی کلیموں کی کاپیاں اکٹھا کرنے میں مصروف ہو گئے تھے۔ بدقسمتی سے وہی لوگ پاکستان پر پہلے دن سے قابض ہیں جنہوں نے شروع دن سے پاکستان کے وجود کو نوچنا شروع کر دیا تھا ۔
آج صورت حال یہ ہے ملک میں امن و امان کا کہیں وجود نہیں( اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میرے پیارے پاکستان میں اسلامی عدل و انصاف کی حکمرانی قائم ہو جائے اور میں دل کھول کر آزادی کا جشن منا سکوں) کراچی اور بلوچستان کے حالات کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہیں۔ ہر روز درجنوں انسان قتل کر دیئے جاتے ہیںجن میں زیادہ تعداد محب وطن غریبوں کی ہوتی ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ کیا ہم کراچی’ بلوچستان اور برما میں ہو رہی قتل و غارت میں پسی ہوئی زندگی کو لے کر آزادی کا جشن منا سکتے ہیں؟ کیا ہمیں اپنے پیارے وطن میں صرف چند لوگوں کی حسین خواہشات کے بدلے باقی ماندہ سسک سسک کر مرنے والے عام لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر آزادی کا جشن منانے کا حق ہے؟ کیا ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں یہ احساس تک ہی نہیں رہا کہ ایک طرف خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں صرف اپنے مفادات کی خاطر اور دوسری طرف عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی دلدل میں مسلسل گھری جا رہی ہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اپنے ہم وطنوںکی لاشوں پر آزادی کا جشن منانا چاہئے لیکن پھر بھی اگر ہم بضد ہیں کہ ہم نے جشن آزادی منانا ہے تو ہمیں اس وقت جشن آزادی حقیقی طور پر منانے کا حق ہے جب ہم ان بے حس حکمرانوں سے خود کو اور اپنے وطنوںکو سمجھ لیں تبھی ہم اس آزادی کو منانے کا حق رکھتے ہیں۔ میں اکثر سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ شائد ہمارے اعمال ہی ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے ہم پر اس قدر بے حس حکمران مسلط ہوئے ہیں جن کو سوائے کرپشن اور مہنگائی’ قتل و غارت گری اور دیگر عیاشیوں کے علاوہ اور کوئی بھی ایسا کام کرنا ہی نہیں آتا کہ ان کو ووٹ دینے والی عوام کو بھی سکھ کا سانس مل سکے اور میں اور میرے ہم وطن بڑی سادگی سے ان کے جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں میں آجاتے ہیں۔ کوئی ہم سے روٹی کپڑا اور مکان دینے کا خدائی وعدہ کرتا ہے تو کوئی قرض اتارو مہم چلا کر عوام کو فریب دیتا ہے اور کوئی ہسپتال کے نام پر اکٹھی ہونے والی زکوٰة و صدقات کی رقم سٹے میں ہار جاتا ہے۔ عوام ہر بار جذباتی ہو کر ان کا اعتبار کر لیتے ہیں۔
ہمیں ہر بارلگتا ہے کہ اب یہ سچ بول رہے ہیں لیکن شاید ہمارے حکمرانوں کو تو سچ بولنا آتا ہی نہیں وہ تو ہمیشہ سے جھوٹے وعدوں کے بل بوتے پر قوم کے جذبات سے کھیلتے آئے ہیں اور شاید کھیلتے ہی رہیں گے۔ میں عام عوام ہوں پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام اور مجھے کبھی بھی میرے حکمرانوں نے سچ نہیں بتایا کیونکہ عوام جذباتی ہے وہاں میں جذباتی ہوں۔ جذباتی ہونا کوئی گناہ نہیں اگر کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ میرے جذبات آج میرے ضمیر کو جھنجھوڑ کر یہ کہہ رہے ہیں ”نہیں چاہئے مجھے کسی بھی غیر اللہ سے مدد’ ‘میں ملک خداداد جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا کی باشعور عوام ہوں۔ مجھے صرف اس خدا کی مدد چاہئے جو میرا خالق بھی ہے’ رازق بھی اور مالک بھی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میرے اللہ کی مدد سے ہی مجھے پاک دھرتی ملی۔ ہاں میں عوام ہوں۔ کون تھا جس نے جدوجہد آزادی پاکستان کے وقت میری مدد فرمائی جب نہ تو مسلمانوں کے پاس کوئی فوج تھی نہ ہی میزائل تھے اور نہ ایٹم بم تھا۔ ہاں ایک سچا جذبہ تھا ایمان کا جس کی بنیاد اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے مسلمانوں نے دنیا کو ثابت کر دیا کہ ہم حق پر ہیں اور کوئی ہمیں خرید نہیں سکتا۔ حتیٰ کہ انگریز خود یہ بات کہنے پر مجبور ہو گیا کہ محمد علی جناح کو خریدا نہیں جا سکتا۔ محمد علی جناح اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ایک سچے رہنما تھے لیکن اکیلے نہیں ان کے پیچھے کروڑوں مسلمان جذبہ ایمان لئے سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے تھے اور تب محمد علی جناح کسی ایک شخص کا نام نہ تھا بلکہ پوری قوم تھی مگر آج ہمارے حکمران خود بھی بک گئے اور قوم کے ان بچوں تک کو بھی بیچ دیا ہے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے اس کے باوجود بھی دل نہیں بھرا ۔ جب عوام کا لہو اپنی ہی دھرتی پر بہہ رہا ہو اور حکمران جھوٹ پہ جھوٹ بولیں اور اپنا ایمان کھو دیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی بجائے غیراللہ سے مدد مانگیں تو ایسے میںمیں کہاں ہوں؟
میں عوام ہوں پاکستانی عوام’ مجھے اپنے گریبان میں بھی جانکنا ہوگا آج کوئی دن رات خالی نہیں جاتے کہ جب پاک دھرتی لہولہان نہیں ہوتی۔ پاکستان کا ذرہ ذرہ میرا وجود ہے۔ اگر جسم کے کسی بھی حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس درد اور تکلیف سے بے چین و بے قرار ہو جاتا ہے ۔ آج بلوچستان اور کراچی سمیت پورے ملک میں جو رہا ہے کیا یہی مقصد تھا آزادی حاصل کرنے کا؟ آج آزادی پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوئے 67 برس ہو چکے ہیں لیکن میری حالت میں بہتری نہیں آئی۔ آزاد ہونے سے پہلے بھی میرا وجود زخموں سے چور چور تھا اور آج بھی اپنے ہی لہو میں نہا رہا ہے مگر اس اذیت کے عالم میں میں چیخ چیخ کر مدد کے لئے پکار رہا ہوں تو میری پکار بے سود ہے کیونکہ میرا ایمان بھی کمزور ہو چکا ہے آج مجھے اللہ اور اللہ کے بعد اپنے اٹھارہ کروڑ ہم وطنوں کو پکارنا چاہئے تھا لیکن میں نے مدد ان حکمرانوں سے مانگی جو خود غیر اللہ سے مدد مانگتے پھرتے ہیں جب میں نے اپنے گریبان میں جھانکا تو میں نے خود کو غلط پایا میرا بھروسہ تو خدا پر ہونا چاہئے تھا پھر کیوں نظر کسی اور پر لگی ہے میرا دل اپنے ہر مسلمان بھائی کے جان و مال کے ضیاع پر خون کے آنسو روتا ہے’ پھر کیوں میں خاموش تماشائی بن کر رہ گیا ہوں۔
آج مجھے اس پاک دھرتی پر ناپاک وجود کے سائے لہراتے ہوئے نظر آ رہے ہیں پھر بھی میں چپ ہوں۔ مجھے کس بات کا ڈر ہے جبکہ اصل طاقت کا سرچشمہ تو میںہوں۔ میں عوام ہوں پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام۔ اگر عوام ہی نہ رہی تو پھر کس پہ حکومت کریں گے اور کس کے سادہ جذبوں سے کھیلیں گے حکمران؟
ہاں میں جذباتی ہوںلیکن انتشار پسند نہیں۔ میں اس پاک سرزمین کی عوام ہوں اور مجھے نظر آ رہا ہے کہ مجھ پر محض جذباتی ہونے کی مہر لگا کر مجھ کو آج تک ملکی معاملات سے دور رکھا گیا ہے اور اس قدر دور رکھا گیا کہ آج عوام اور حکومت کے درمیان بہت بڑا خلا پیدا ہو چکا جو کسی صورت پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ حکمران قوم کو کسی صورت سچ بات بتانے کو تیار نہیں وہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ چاہے ملک کا کوئی بھی معاملہ ہو حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد ہی نظر آتا ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ”لوگو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرنی نہیں ہوتی ”تو پھر ایک مسلم ریاست کے مسلم حکمران اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور کیوں نہیں ہیں بے شک قرآن کریم جو پوری انسانیت کے لئے سرچشمہ ہدایت و رہنمائی ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے کسی بھی مسلمان کو اس حقیقت سے انکار نہیں کہ قرآن کریم کائنات کے لئے ایسا واحد ضابطہ حیات ہے جس میں کوئی تضاد نہیں جس نے یہ واضح کر دیا کہ اللہ کے نزدیک کسی گرے کو کالے یا کسی کالے کو گورے پر’ کسی عربی کو عجمی پر یا کسی عجمی کو عربی پر’ کسی امیر کو کسی غریب پر یا کسی غریب کو کسی امیر پر کسی قسم کی کوئی فوقیت حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔ اگر ہمارا ایمان قرآن پر ہے تو پھر ہم کیوں پنجابی’ سندھی’ بلوچی اور پختون ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک تو وہ انسان بہتر ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں جس کے قول و فعل سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے تو پھر ہم جو کہتے ہیں وہ کیوں نہیں کرتے اور جو کرتے ہیں وہ کیوں نہیں کہتے۔ ہمارے کرنے اور کہنے میں یکسانیت کیوں نہیں۔ میرے ہم وطنوں اگر ہمیں حقیقی آزادی کاجشن منانا ہے تو پہلے پاکستانی بننا ہوگا۔
آج ہمیں یوم آزادی کو تجدید عہد کے طورپر منانا ہوگا۔ اپنے اسلاف کی قربانیوں کویاد کرنا ہوگا اپنے ملک کو دنیا میں باعزت مقام دلانے کے لئے عہد کرنا ہوگا پر ہم آزاد ہونے اور آزادی منانے کا حق رکھتے ہیں۔
(13 اگست 2012ئ)