لیڈر یا لوڈر؟
13 سال ago yasir 0
چند دن پہلے پاکستانی قوم نے 66 واں یوم آزادی بڑی دھوم دھام سے منایا اور ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت پیش کیا کہ خیر سے ہمارا پیارا وطن آج 66 سال کا ہو گیا ہے ۔ آج اگر ہم ان 66 سالوں کا حساب لگائیں ‘ حکمرانوں کے کردار’ عمل’ قول و فعل اور ان کے لوڈر یا لیڈر ہونے پر بحث کریں تو آپ کو جان کر دکھ ہوگا کہ قائد اعظم کے بعد پاکستان کو لوڈر تو بے شمار ملے ہیں لیکن لیڈر کوئی نہیں۔ لوڈر کا کام بوجھ اٹھانا ہے یہ کام ریلوے اسٹیشنوں پر سرخ لباس پہن کر قلی بھی کرتا ہے اور ایوانوں میں بیٹھ کر عوام کے دکھ درد کا بوجھ اٹھا کر عوام کو جھوٹی تسلیوں کا سہارا دے کر عوام کو گیس بجلی و غیرہ و دیگر ضروریات زندگی کا بوجھ اٹھا کر حکمران بھی کرتے رہے ہیں ان میں فرق ہے تو صرف سیٹ کا ۔ ایک پھٹے پرانے کپڑے پہن کر بوجھ اٹھاتا ہے تو دوسرے حکمرانی کے مزے لے کر’ جائیدادیں بنا کر قیمتی ترین سوٹ پہن کر قیمتی ترین محلوںمیں بیٹھ کر بھوکی ننگی قوم کے دکھوں کا بوجھ اٹھا کر عوام کی زبانی جمع خرچ کرکے خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔
لیڈر رہنمائی کرنے والے کوکہتے ہیں جو قوم کی امنگوں کے مطابق فیصلے کرتا ہے جو ملک و قوم کو دنیا میں بلند مقام پر لے جاتا ہے جو محدود وسائل سے لامحدود مسائل کو حل کر لیتا ہے جو اپنے ذاتی کردار’ گفتار’ عمل’ قول و فعل اور مثبت سوچ سے آگے بڑھتا ہے جو ہارڈ ورک کی بجائے سمارٹ ورک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو کہتا ہے اس پر عمل کرتا ہے۔
قائداعظم بلاشبہ ایک بے مثال لیڈر تھے اور ان کے ہر کام میں لیڈر شپ کی نمایاں اور واضح ثبوت ملتے ہیں۔ جو شخص گورنر جنرل آف پاکستان ہوتے ہوئے ٹریفک سگنل پر گل حسن پر سخت ناراض ہو جائے کہ میری وجہ سے پھاٹک کیوں کھلا رکھا اور پھاٹک بند کرنے کا حکم دے دیا کہ اگر میں قانون نہیں مانوں گا تو میری قوم کیا کرے گی؟ جو طیارے میں رائٹنگ ٹیبل لگانے پر وزارت خزانہ کے اعتراض پر تحریری معافی مانگ لے اور اپنا حکم منسوخ کر دے جو صرف اس بات پر اپنے بھائی سے تعلق توڑ دے کہ وہ اپنے وزٹنگ کارڈ پر یہ لکھوائے کہ برادر آف قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان’ جو گورنر ہائوس کیلئے صرف 38 روپے کی خریداری پر آڈٹ کرکے محترمہ فاطمہ جناح کی منگوائی ہوئی چیزوں کی وصولی کا حکم جاری کر دے جو اپنے ذاتی اکائونٹ کو بھی عوام کی امانت سمجھے جو کرنل الٰہی بخش کے دو روپے میں خرید کردہ موزے واپس کر دے حالانکہ ان کے ذاتی اکائونٹ سے خریدے گئے ہوں جویہ کہے کہ غریب ملک کا حکمران ایسی عیاشی نہیں کر سکتا جو ایک نرس کے تبادلے کے لئے محکمہ صحت کے معاملے میں مداخلت نہ کرے جو اپنی بیماری کو جان بوجھ کر چھپائے کہ تحریک پاکستان کو نقصان نہ ہو جس کے بارے میں کانگرنس کے بڑے رہنما ولب بھائی پٹیل نے کہا کہ اگر کانگریس کے پاس صرف ایک جناح ہوتے اور مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی ہوتے تو پاکستان کبھی نہ بنتا۔
آج اٹھارہ کروڑ عوام کے خدمت گار ہمارے حکمران’ سرکاری فنڈز کو ذاتی تصور کرتے ہیں۔ جاہل اور ان پڑھ ڈائریکٹر کی سیٹ پر بٹھا دیتے ہیں جو کرپشن بھی کرتے ہیں نااہل بھی ہوتے ہیں’ ملکی قانون کو توڑتے ہیں’ مہنگے ترین ہوٹلوں میں رہتے ہیں جن کے کچن کا خرچہ کروڑوں روپے بنتا ہے جو سرکاری دوروں پر رشتے داروں اور حمایتیوں کی فوج لے جاتے ہیں جو اقتدار کیلئے دشمن کو دوست اور دوست کو دشمن بنا دیتے ہیں جو فرینڈلی اپوزیشن بھی کرتے اور حکومت کے مزے بھی لیتے ہیں ‘ جو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بھی لگاتے ہیں اور عوام سے بنیادی حق بھی چھین لیتے ہیں’ جو قرض اتارو ملک سنوارو بھی کہتے ہیں لیکن عوام کو حساب دینے سے گریزاں ہیں جو سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بھی لگاتے ہیں اور عافیہ صدیقی جیسی عظیم خاتون کو امریکہ کے حوالے بھی کر دیتے ہیں جو بہادر بھی بہتے ہیں اور امریکہ کی ایک دھمکی پر ملکی سا لمیت تک اس کے حوالے کر دیتے ہیں جو ڈالروں کے عوض ڈرون حملوں کا سودا منظور کر لیتے ہیں جو 90 دن کا وعدہ کرکے گیارہ سال حکمرانی کرتے ہیں جو ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ گلاتے ہیں اور بنگلہ دیش کی بنیاد میں پہلی اینٹ رکھ دیتے ہیں جو حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو منظر عام پر لانے سے روکتے ہیں جو لیاقت علی خان کے قاتل کو قتل کرکے تمام ثبوت دفن کر دیتے ہیں جو ضیاء الحق کے قتل’ بے نظیر بھٹو کے قتل’ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل’ حکیم سعید کے قتل’ جو میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل جیسے ہائی پروفائل کیسوں میں ناکام ہو جاتے ہیں جو پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ بھی کرتے ہیں جو زکوٰة ‘ صدقات اور خیرات کے پیسوں سے سٹہ کے کاروبار میں رقم بھی لگاتے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں کہ ہم ہی پاکستان کو بچائیں گے اور ہم ہی پاکستان کے حقیقی محافظ ہیں’ جو ایوبی دور میںمحترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں دھاندلی سے شکست دے دیتے ہیں جو ملک پر بدقماش’ عیاش اور اخلاقی کمزوریوں سے لدھے ہوئے لوگوں کو حکمران بننے میں مدد دیتے ہیں پھر بھی کہتے ہیں کہ ہم ہی ملک کے خیر خواہ ہیں ہم ہی بہترین لیڈر اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیںجو پرویز مشرف کو دس بار وردی میں صدر بنانے کی باتیں کرتے ہیں جو لال مسجد کے واقعہ پر خاموش ہوتے ہیں جو الیکشن میں دھاندلی کے ریکارڈ بنا کر آنے والے ماموں’ چاچوں’ تایوں’ بیٹوں’ بھتیجوں اور رشتے داروں کی فوج سمبلی میں لانے والے اقربا پروری کے خلاف باتیں کرتے ہیں تو پھر لیڈر کون لوڈر کون؟ اس کا فیصلہ عوام کی عدالت میں رکھتا ہوں۔
(20 اگست 2012ئ)

