حوا کی بیٹی

12 سال ago yasir 0

ظہور اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں عربوںکی حالت قلمبند کرنا چاہیں تو اس معاشرے کی خامیوں’ خرابیوں اور جہالت پر ایک ضنحیم کتاب لکھی جا سکتی ہے قاری پر گراں نہ گزرے اس لئے انتہائی اختصار سے لکھنے کی کوشش کی ہے۔ حضورۖ کی آمد سے قبل معاشرہ ذات پات اور رنگ و نسل میں تقسیم تھا امیر کو غریب پر’ گورے کو کالے پر’ عربی کو عجمی پر اور آقا کو غلام پر برتری حاصل تھی قبائل کے سردار جتنے بڑے ظالم ہوتے اتنے ہی بڑے مرتبے اور مقام پر فائز ہوتے علم کی روشنی سے ناآشنا معاشرہ ہر کام کو طاقت سے حل کرنا جانتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا شروع ہو جاتا جو نسل در نسل چلتا رہتا۔ شراب نوشی’ جوا’ جھوٹ مکرو فریب اور جہالت پر فخرکیا جاتا الغرض مجموعی طور پر معاشرہ ہر طرح کے عیب میں گھرا ہونے کے باوجود اس پر فخر کرتا۔ اگر صرف عورت کے معاشرے میں مقام کی بات کی جائے تو نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں بے حیائی اپنی انتہائی حدوں کوچھو رہی تھی۔ زنا کرنا اور اس کو دوسرے لوگوں کے سامنے فحش انداز میں پیش کرنا عزت کی علامت تھا ناچ گانا رقص و سرود اور عریانی کی تمام حدوں سے آگے نکل گئے تھے شعراء خواتین کی تصویر کشی ننگے الفاظ میں کرکے اس کے حسن کا پرچار کیا کرتے تھے خواتین کو بھیڑبکریوں کی طرح منڈیوں میں خریدا اور بیچا جاتا۔ والد کی وفات پر اس کی بیویاں اس کے لڑکوں میں تقسیم کر دی جاتیں جائیداد میں اس کا حصہ نہیں تھا اگر کہا جائے کہ اس معاشرے میں عورت مظلوم ترین اور کم ترین درجے پر تھی تو غلط نہ ہوگا۔ دین اسلام نے عورت کو معاشرے کا بلند ترین اور معززترین درجہ دیا اس کے پائوں میںجنت رکھ دی اس کو معاشرے میں باعزت مقام دیا جائیداد میں اس کا حصہ مقرر کیا اس کی گواہی کو تسلیم کیا گیا اس کو ماں بیٹی بہن بیوی الغرض ہر روپ اور ہر شکل میں قابل احترام قرار دیا۔
آج ہم اس عظیم ترین ہستی حضرت محمدۖ کے امتی ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ان کی تعلیمات کو سچ بھی مانتے ہیں اور اپنی دنیاوی اور آخروی زندگی میں کامیابی کی ضمانت بھی سمجھتے ہیں اگر ایمانداری سے غور کریں اور سوچیں کہ آج ہم کہاںکھڑے ہیں؟
قبل از اسلام زمانہ جاہلیت یا اسلام کا سنہری دور؟ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اٹھارہ کروڑ سے زیادہ آبادی میں نصف سے زیادہ خواتین ہیں آج اس معاشرے میں زنا عام ہو چکا ہے عورت کو خرید اور فروخت کیا جاتاہے ۔ فحش اور بیہودہ قسم کا لٹریچر بازاروں میں بھرا پڑا ہے آج معصوم بچیوں کے ساتھ درندے غلط کاری کرتے ہیں آج بے روزگاری اور مفلسی سے تنگ آکر باپ بیٹی کو دریائے راوی میں پھینک دیتا ہے آج عورت کا بازار میں نکلنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے آج والدین بچیوں کو سکول بھیجنے سے گھبراتے ہیں آج کا یہ معاشرہ عورت کو ماں بہن اور بیٹی کی نظر سے دیکھنا جرم سمجھتاہے۔ کیبل اور میڈیا کی وجہ سے نوجوان اور معصوم اس دلدل میں پھنس رہے ہیں کوئی دن کوئی گھڑی ایسی نہیں جب زنا’ زیادتی’ قتل و غارت گری اور عصمت دری کی خبریں آنکھوں کے سامنے نہیں آئیں آج کا یہ بے حس معاشرہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے کانوں سے سن کر بھی خاموش ہے اور شاید اس خیال میں کہ میرے ساتھ تو ایسا نہیں ہوگا یاد رکھیں جب ظلم حد سے بڑھ جائے’ ظالم درندگی پراتر آئیں اور معاشرے کا وہ طبقہ جو عزت اور قدرکی نظرسے دیکھا جاتا ہو اس پر خاموش تماشائی بن جائے تو اس جرم میں وہ بھی اللہ کے عذاب میں پھنس جاتاہے۔
جاہلیت کے زمانہ میں باپ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے تاکہ لوگ اس کی بیٹی کے بارے میں اس کے اعضاء کی ننگی شاعری نہ کریں اس کی معاشرے میں جگ ہنسائی نہ ہو اور آج 21 ویں صدی کا جدید معاشرہ جب بیٹی کو زندہ دریا میں پھینک دے بدمعاش درندے معصوم فرشتوں جیسی بیٹیوں کو زیادتی کا نشانہ بنائیں تو پھرکہنے دیجئے کہ حوا کی بیٹی اس وقت بھی ظلم سہتی تھی آج بھی معاشرتی ناہمواری کا شکار ہے اس زمانے میں بھی عورت کو کمزور گھٹیا اور جیسے چاہا اس سے سلوک کیا جاتا تھا آج بھی ماڈرن دور میں وہی ہے جب اس گلوبل ویلیج میں عورت خواہ امریکہ میں ہو یا کسی تھرڈ ورلڈ کے غریب ترین ملک میں مردوں کے معاشرے میں بے بس’ لاچار اور کمزور ہے تو پھر اس ترقی کے دعویدار کہاں ہیں؟ آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں ریپ کے کیس سب سے زیادہ ہیں۔
کیا حوا کی بیٹی اسی طرح لٹتی رہے گی؟ کیا انصاف کے علمبردار اسی طرح خاموش رہیں گے کیا ملک کا انتظام چلانے والے ظالم کے آگے ایسے ہی بے بس رہیں گے۔ ہمیں عورت کو انصاف دلانا ہے ہمیں دین اسلام اور عمر فاروق کے عدل کو اپنانا ہوگا ہمیں معاشرتی ناہمواری کو ختم کرنا ہوگا ورنہ دور جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والے اور آج کے دور میں باپ کا معصوم بیٹی کو دریا میں پھینک کر ختم کر دینے میں کچھ فرق نہیں۔ وقت بدلا ہے لوگ بدلے ہیں لیکن سوچ نہیں بدلی ہمیں سوچ کو بدلنا ہے اور حوا کی بیٹی کو وہ عزت وہ مقام اور وہ درجہ دینا ہے جو ہمارے دین نے متعین کیا ہے۔
(23 ستمبر 2013ئ)