صرف ایک یوٹرن اور

6 سال ago yasir 0

ایک ضرب المثل سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ ”بے قوف دوست سے دانا شمن اچھا ہے ”جس کی وضاحت ایک کہانی سے یوں کرتے تھے کہ ایک جنگل میں ایک شخص رہا کرتا تھا اس کی دوستی ایک ریچھ سے ہوگی وہ شخص ریچھ کیلئے اپنے کھانے سے بچا کر اس کھلا دیتا ایک دن وہ شخص دوپہر کو جنگل کی گھنی چھائوں میں درخت کے نیچے سو رہا تھا اور ایک مکھی بار بار اسے تنگ کر رہی تھی جبکہ ریچھ اپنے ہاتھ سے بار بار اسے ہٹا رہا تھا تاکہ اس کے سوئے ہوئے دوست کی نیند خراب نہ ہولیکن مکھی جانے کانام ہی نہیں لے رہی تھی جس سے سوئے ہوئے شخص کی نیند خراب ہورہی تھی جب مکھی بار بار ہٹانے سے بھی کام نہ بنا تو ریچھ نے قریب پڑا ہو اپتھر اٹھایا اور جو مکھی سوئے ہوئے شخص کے سرپر بیٹھی تو اس نے زور سے مکھی کو مارنے کیلئے پتھر گرایا مکھی تو اڑ گئی جبکہ وہ شخص موقع پر ہی وفات پاگیا ۔ یہی حال آج کل میرے وطن عزیزکا ہے جہاںہر آنے والے دن کو ئی نہ کوئی نیا کٹا کھل جاتا ہے اور حکومتی نمائندوں سے لے کر وزیراعظم تک اس کو حل کرنے کا ادراک ہی نہیں رکھتے اور مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اورخراب کر دیتے ہیں ۔ جناب وزیراعظم عمران خان صاحب پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے آپ کو ایمانداری کا سرٹیفکیٹ دے دیا ۔22کروڑ عوا م کی اکثریت نے آپ کو ووٹ دیکر اس عہدے کیلئے منتخب کر لیا دو نہیں ایک پاکستان ‘ریاست مدینہ ‘ انصاف کا حصول ‘بے روزگاری اور کرپشن کا خاتمہ ‘اقربا پروری اور اسلام کے سنہری اصولوں کی باتیں کرنے والے پھر آج ہر کام میں ناکام کیوں ہیں ؟
عمران خان صاحب ایمانداری بہت اچھی صفت ہے پر صرف اکیلی ایمانداری سے حکومت نہیں چلا کرتی ۔ جب آپ مدینہ کی ریاست کی بات کرتے ہیں تو مدینہ والے آقا حضرت محمد ۖ سے نسبت بھی اتنی ہی مضبوط بنا ناہوگی تاکہ روحانی طاقت بھی آپ کے ساتھ ہو۔ الفاظ کے چنائو اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا ۔ الفاظ کا چنائو کرتے وقت ہزاربار سوچنا ہوگا ۔ بلخصوص جب آپ دینی معاملات پر بات کر رہے ہوں زبان کی غلطی اور پھر اتنے بڑے عہدے کے مالک سے ناقابل برداشت ہے ایک مسلمان میں لاکھوں غلطیاں ہو سکتی ہیں ‘شرعی تقاضوں میں کمزوریاں ہو سکتی ہیں پر نبی ۖ کی شان میں بھول کر بھی بے ادبی برداشت نہیں ۔ اللہ سے معافی مانگیں رجوع کریں اور آئندہ کیلئے انتہائی محتاط رویہ اختیار کریں ورنہ عذاب کیلئے تیار ہو جائیں ”بہت ہوگیا چور چور کا شور” اب کچھ کرنے کا وقت آگیا ہے چو رجانیں اور عدالتیں اب آپ کو عوام کے مسائل پر توجہ دینا ہوگی عوام کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے انصاف کو یکساںرائج کرنا ہوگا تعلیمی نظام ایک لانا ہوگا مہنگائی کو ختم کرنا ہوگا ضروریات زندگی کو سہل بنانا ہوگا ۔ اب آپ کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے کہ فوج میرے خلاف ہے عوام نے مجھے چلنے نہیں دیا ۔ حز ب مخالف میرے کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ آپ کے تمام مخالفین اب جیلوں میں بند ہیں یا مقدمات بھگت رہے ہیں سرکار آپ کی ‘سرکاری مشینری آپ کی اور سرکاری ادارے آپ کی پشت پر بیٹھے ہیں پھر بھی اگر عوام بھوکی ‘ننگی ہو انصاف نہ ملے تو قصور وار حکمران ہوں گے اور موجودہ حکومت ہوگی ۔ بقول آپ کے کرپشن کے بادشاہوں کو بند کر دیا ہے تو پھر اب پاکستان کی عوام کو آسانیاں ملنی چاہئیں ۔ اب تو خاتون اول پاکستان نے بھی آپ سے کہہ دیا ہے کہ ”آپ جناب وزیراعظم پاکستان ہیں ” مسائل کے حل آپ ہی نے کرنے ہیں وزیراعظم صاحب بددعائیں اثر رکھتی ہیں اور عوام اس وقت بد دعائیں دے رہی ہے غریب کیلئے گیس ‘بجلی اور دیگر بلوں کی ادائیگی کے بعد سوائے اللہ کے نام کے اور کچھ باقی نہیں رہتا اگر سب کچھ یونہی چلتا رہا تو آپ کی ایمانداری والی سند بھی بے وقعت ہو جائے گی کیونکہ ایک حکمران کو بہترین معاملہ فہم ‘برد باد ‘باریک بین ‘دانشمند ‘بروقت قوت فیصلہ کرنے والا’ افہام و تفہیم سے چلنے والا’ اسباب اور نتائج کے درمیان راہ ہموار کرنے والا ہونا چاہئے نہ کہ ضدی۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا اگر جائزہ لینا ہو تو اس کی کابینہ اور مشیروں کو دیکھا جاتا ہے۔ کابینہ کی کارکردگی بھی آپ خود فیل کرچکے ہیں۔ آپ کے مخالفین نے یو ٹرن کو آپ کے نام سے منسوب کردیا ہے اور آپ خود بھی کہتے ہیں کہ میں یوٹرن لے لے کر وزیراعظم بن گیا۔ تو خدارا ایک یوٹرن انصاف کی بحالی کیلئے ‘ ایک یوٹرن عوام کی فلاح کیلئے’ ایک یو ٹرن مہنگائی کے خاتمے کیلئے’ ایک یوٹرن کشمیر کی آزادی کیلئے اور بھارت کیخلاف جرأت مندانہ فیصلہ کرنے کیلئے اور ایک آخری یوٹرن پاکستان کو حقیقی ریاست مدینہ کیلئے’ جہاں غریب اور امیر کیلئے ایک قانون تھا۔ یہ مملکت خداداد کلمہ طیبہ کے نام سے بنا ہے۔ اس کو لبرل ازم سے بچایا جائے۔ آئے دن کبھی تعلیمی نظام اور کتابوں میں حضرت محمدۖ کے خاتم النبین کے الفاظ کو بدلا جارہا ہے کبھی الیکٹرانک میڈیا میں عریانی’ فحاشی اور بے حیائی کے کرداروں کو ایوارڈ دئیے جارہے ہیں۔ کبھی اسلامی اقدار اور مسلم ہیروز کو اجاگر کرنے کی بجائے مضامین کو آہستہ آہستہ نکالا جارہا ہے۔کل کے واقع پی آئی سی پر وکلاء گردی نے پاکستان کو دنیا میں ننگا کردیا ہے۔ کیا وزیراعظم اور حکومت اتنی کمزور ہے کہ چند کالے کوٹ والے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کریں؟ جہاں جنگ کے دوران بھی ہسپتال محفوظ رہیں یہ بدمعاش اس پر حملہ کریں۔ ایسی کالی بھیڑوں کو جنہوں نے یہ حرکت کی ہے عبرتناک سزا دلوائیں۔ ہم ماڈل ٹاون اور کراچی کے واقعات کو روتے تھے اب سانحہ ساہیوال اور پی آئی سی لاہور میں مارے جانے والے مریضوں کا خون کن کے ہاتھ پر تلاش کریں؟ وزیراعظم صاحب اب چور چور کہنے کی بجائے صرف اور صرف ایک یوٹرن عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کیلئے سچ مچ لے ہی لیں ورنہ قوم اجتماعی بدعاؤں کیلئے تیار ہو چکی ہے اور یہ بددعائیں اثر رکھتی ہیں۔
16 دسمبر2019ء