آج کایزید اور اس کے حواری

6 سال ago yasir 0

چشمِ تصور میں آج پھر کربلا زندہ ہو کر میرے سامنے آگیا۔ آج پھر دینِ حق پر ایک کاری ضرب لگی ہے اور آج پھر ہر مسلمان جو غیرت سے جینا اور غیرت سے مرنا چاہتا ہے اُس کی روح تڑپ گئی ہے۔ میدان کربلا میں امام حسین اور اُن کے اہل بیعت کو قتل کرنے والے بھی کلمہ گو تھے اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلواتے تھے اور اسی نبی آخرالزمان کا کلمہ بھی پڑھتے تھے پر اُن کی تلواریں یزیدی لشکر کے ساتھ تھیں اور ہمدردیاں خانوادے رسولۖ کے ساتھ دنیا میں بسنے والے کم و بیش سوا ارب مسلمانوں کی یکجہتی کا یہ عالم ہے کہ آج کے یزید ہندوستان کے مودی کے حکم پر کشمیر میں 90 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ کھانا’ پینا دوائیں اور ضروریات زندگی بند کردی گئی ہے۔ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے۔ باپردہ خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے۔ کرفیو لگا کر کشمیر کا پوری دنیا سے رابطہ کاٹ دیا گیا ہے۔ میڈیا پر پابندی حتیٰ کہ ہندوستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی کشمیر میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ سارا ظلم دیکھتے ہوئے بھی یو اے ای کی طرف سے قاتل اعظم مودی کو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دے کر مسلمانوں اور لاکھوں کشمیریوں پر کئے جانے والے مظالم کو جائز قرار دے دیا گیا۔ ایسے بے حس حکمران جن کو صرف عیاشی اور اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ کل قیامت والے دن کیا منہ دکھائیں گے۔ جب سوال ہوگا کہ دینِ حق کیلئے اور مظلوم کی داد رسی کیلئے تم نے کیا کام کیا؟ آج سعودی عرب میں وہ سب جائز اور قانونی حیثیت جارہی ہے جو اسلام میں منع کیا گیا ہے۔ آج جوئے خانے کھولے جارہے ہیں۔ سینما گھر بنائے جارہے ہیں۔ فحاشی اور عیاشی کا ہر وہ کام بڑھ چڑھ کر کیا جارہا ہے جو دینِ حق کی بنیادوں کو کمزور کررہا ہے۔ آج دبئی کے سربراہان ہندوؤں کی عبادت گاہوں کا افتتاح کرتے نظر آتے ہیں۔ آج بتوں کی پوجا سرکاری پروٹوکول میں شروع کردی گئی ہے۔ آج میرا سرشرم سے جھک گیا جب مودی جیسے دشمن اسلام کو اسلام کے ٹھیکیداروں نے امن کا ایوارڈ دیا۔ آج میں ہار گیا۔
بقول شاعر
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو میرے
جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
جب ہم مسلم امہ کے ایک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو عملی مظاہرہ بھیضروری ہے۔ ان عیاش پرست شہزادوں سے تو ایک غیر مسلم خاتون جینڈا آرڈن وزیراعظم نیوزی لینڈ کا کردار عظیم تر رہا تھا۔ جس نے اپنے قول و فعل اور عمل سے مسلم امہ کے دل جیت لئے تھے۔ آج غیر مذہب کے لوگ پوری دنیا میں کشمیر اور کشمیریوں کیلئے آواز بلند کررہے ہیں۔ عیسائی’ سکھ’ ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی اس حیوانی اور شیطانی عمل کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ پر میں آج سوال کرتا ہوں اسلامی فوج کے سربراہ جناب راحیل شریف سے انہوں نے اس پر کیا عمل کیا؟ کشمیریوں اور پاکستان کی اس مشکل گھڑی میں کیا مدد کی؟ راحیل شریف صاحب (اُس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی)۔ آج پاکستان کی حکومت کشمیر کیلئے شاندار’ سفارتی’ سیاسی’ اخلاقی محاذوں پر لڑرہی ہے۔ دنیا کو کشمیر کے مسئلے پرجھنجوڑ رہی ہے۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ لڑائی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ پر جب وہ جنگ مسلط کردی جائے تو پھر اگرچہ’ چونکہ’ چنانچہ اور مصلحت کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔پھر جنگ جیتنے یا ہارنے کیلئے نہیں۔ اپنے مشن کو زندہ رکھنے کیلئے لڑی جاتی ہے۔ آج میں سلام پیش کرتا ہوں ان کشمیری نوجوانوں کوجو قربانیاں دے رہے ہیں۔ سلام پیش کرتا ہوں ان ماؤں’ بہنوں’ بیٹیوں اور بزرگوں کو جن کا جذبہ سلامت ہے اور وہ کفر کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔
یہ ہندو بنیا ہمیں کشمیر تھالی میں رکھ کر پیش نہیں کرے گا۔ قراردادوں سے یہ مسئلہ نہ 72 سالوں میں حل ہوا ہے نہ آئندہ 100 سالوں میں حل ہوگا۔ اس کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے جنگ اور جہاد ہند کا اعلان۔ آج اگر پاکستان حکومت جہاد ہند کا اعلان کردے تو کشمیر چھوڑ ہندوستان سے ہندو بنیا بھاگ جانے پر بھی مجبور ہوگا۔ ہم اورکتنی قربانیاں دینگے؟ ہندوستان کبھی پاکستان کا پانی بند کر کے اور کبھی پانی کھول کر آبی دہشتگردی کرتا ہے۔ کبھی اقوام متحدہ’ سلامتی کونسل’ ایف اے ٹی ایف اور دیگر ذیلی اداروں میں جا کر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی پاکستان کے اندر غداروں کے ذریعے سے پاکستان کی سا لمیت پر وار کرتا ہے۔
کبھی بلوچستان اور افغانستان کی طرف سے ہم پر حملے کرواتا ہے۔ آخر یہ کب تک؟ ہم کب تک آنکھیں بند کر کے دیکھتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟
آئے روز سرحدی علاقوں اور ایل او سی پر گولہ باری ہورہی ہے۔ ہمارے ماتھے کا جھومر فوجی شہید ہورہے ہیں۔ سولین آبادی سے بزرگ بچے اور خواتین شہید ہورہی ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کو پہلے چلانے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ کشمیر کاز کا جتنا نقصان بطور چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن نے پہنچایا کسی اور نے نہیں۔ آج وہ نوبل انعام یافتہ ملالہ کدھر ہے؟ آج وہ این جی اوز چلانے والی اور موم بتی مافیا کی مادر پدر آزاد آنٹیاں کدھر ہیں؟ آج ان کو کشمیر میں ظلم نظر نہیں آرہا؟ اور آج ملالہ کو پرموٹ کرنیوالے صحافی حضرات بھی اور ملالہ جس کو دنیا کے نمبرداروں نے نوبل انعام دیا تھا ان کے ضمیر کو جگانے میں ناکام کیوں ہیں؟ پاکستان کے اندر کچھ سیاسی جماعتیں آج بھی کشمیر پر سیاست کرتی نظر آتی ہیں اور کرپشن بچاؤ مہم چلا رہی ہیں۔ کشمیر کو اگر پاکستان بنانا ہے تو صرف نعروں سے بات نہیں بنے گی۔ عمل کی ضرورت ہے۔ مودی سرکار نے تو کشمیر کا نقشہ ہی بدل دیا اور سلامتی کونسل اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور ہم پھر ایک بار اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ لے کر جارہے ہیں؟ کیوں؟ انسان دنیا کی بڑی سے بڑی جنگ جیت سکتا ہے۔ بڑے سے بڑے دشمن کا مقابلہ کرسکتا ہے اور جیت سکتا ہے پر انسان اُس وقت ہارتا ہے جب اپنے لوگ دشمن سے جاملیں۔ جب میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کرنے والے اپنی صفوں میں موجود ہوں جب مفادات جیت جائیں اور اجتماعی سوچ ختم ہو جائے۔ جب دنیا کو دین پر ترجیح دی جائے۔ جب ایک کافر مودی کو گھر بلا کر امن کا ایوارڈ دیا جائے۔
یو اے ای اور عرب ممالک نے یہ صرف کشمیر کی جدوجہد کو ہی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ پاکستان کو بھی واضح پیغام دیا ہے کہ مودی ہمارا دوست ہے اور جنگ کا ایک اصول ہوا کرتا ہے۔ (دوست کا دوست’ دوست ہوتا ہے۔ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے اور دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے)۔
پاکستان نے اگر کشمیر کا ساتھ دینا ہے تو ان لولے لنگڑے سہاروں سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ اب ہمیں یا تو عزت سے جینا ہے یا عزت سے مرنا ہے۔ کوئی اور درمیانی راستہ بظاہر نظر نہیں آتا۔ کون کس کے ساتھ ہے اس کا فیصلہ پاکستان کو کرنا ہوگا؟ دور جدید کے یزید مودی اور اس کے حواریوں کا گٹھ جوڑ پاکستان اور کشمیریوں کی جدوجہد کو روک نہیں سکے گا ( انشاء اللہ ) پاکستان زندہ باد کشمیر پائندہ باد
26 اگست 2019ء